گائے کا گوبرگھروں کو اٹامک ریڈی ایشن سے اورپیشاب بہت سی لاعلاج بیماریوں سے بچاتا ہے،بھارتی عدالت

0
43

بھارتی ریاست گجرات کی عدالت کے جج سمیر ویاس نے مضحکہ خیز ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گائے کے گوبر کا لیپ گھروں کو اٹامک ریڈی ایشن سے بچاتا ہے۔

باغی ٹی وی: بھارتی میڈیا کے مطابق گجرات کے تاپی ضلع میں ایک سیشن عدالت کے جج نے ملک میں گائے کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ گائے کے گوبر سے بنے گھر جوہری تابکاری سے متاثر نہیں ہوتے جبکہ گائے کے پیشاب سے بہت سی لاعلاج بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے-

گجرات کے ضلع تاپی کی سیشن کورٹ میں گزشتہ سال ایک 22 سالہ مسلمان نوجوان کے خلاف مختلف قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس کیس میں نوجوان کو گائے اور بیلوں کو گجرات سے مہاراشٹرا لے جانے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اسی حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے گائے کو ذبح کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گائے ایک جانور نہیں ہماری ماں ہے، ملک میں گائے کو بچانے کی ضرورت ہے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ دنیا کے تمام مسائل اس دن حل ہوجائیں گے جس دن کرہ ارض پر گائے کے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرے گا، گائے کے ذبیحہ اور غیر قانونی نقل و حمل کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں یہ ایک مہذبی معاشرے کی توہین ہے اگرچہ ہم گائے کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، لیکن زمین پر اس پر عمل نہیں ہوتا ہے۔

جج نے کہا کہ اگرچہ ہندوستان کو آزادی حاصل ہوئے 75 سال گزر چکے ہیں لیکن گائے ذبیحہ کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں گائے مذہب کی علامت ہے گائے پر مبنی آرگینک فارمنگ کے ذریعے اگائی جانے والی خوراک ہمیں بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے۔

عدالت نے سائنس کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ گائے کے گوبر سے بنے گھر اٹامک ریڈی ایشن سے متاثر نہیں ہوتے جب کہ گائے کا پیشاب بھی متعدد بیماریوں سے بچاتا ہے۔

جج نے کہا کہ گائے خطرے میں ہے کیونکہ آج کل "مکینائزڈ سلاٹر ہاؤسز” میں گائے کا گوشت ذبح کیا جا رہا ہے اور گوشت کے ساتھ گائے کا گوشت نان ویجیٹیرین لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے۔

لوگوں کو گائے کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے، جج نے سنسکرت کے کچھ شلوکوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ "مذہب گائے سے پیدا ہوا ہے” کیونکہ مذہب ‘ورشابھا’ (بیل) کی شکل میں ہے، جو گائے کا بیٹا ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ تکلیف دہ ہے کہ گائے کو غیر قانونی طور پر لے جایا جا رہا ہے اور ذبح کیا جا رہا ہے، ہندوستان میں گائے کی 75 فیصد آبادی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔

اگست 2020 میں، تاپی پولیس نے مہاراشٹر کے مالیگاؤں قصبے کے رہائشی محمد امین انجم کو مبینہ طور پر 16 گایوں اور بیلوں کو ٹرک میں گجرات لے جانے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیاجب پولیس نے ٹرک کو روکا تو ایک گائے اور ایک بیل پہلے ہی مر چکے تھے کیونکہ گاڑی میں مویشیوں کے لیے کافی جگہ یا خوراک نہیں تھی محمد انجم اپنا ٹرک چھوڑ کر موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔

ایک مقدمے کی سماعت کے بعد، سیشن کورٹ نے اسے گجرات جانوروں کے تحفظ ایکٹ، 2011، گجرات جانوروں کے تحفظ (ترمیمی) ایکٹ، 2017، اور جانوروں پر ظلم کی روک تھام ایکٹ، 1960 کے متعلقہ سیکشن کے تحت مجرم پایا۔

2017 میں، ریاستی حکومت نے ‘گجرات جانوروں کے تحفظ (ترمیمی) ایکٹ، 2017’ کی شکل میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف ایک سخت قانون متعارف کرایا، جس میں گائے کے ذبیحہ کے قصوروار یا براہ راست ملوث ہونے کے لیے عمر قید کی سزا کا انتظام ہے عدالت نے ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی اور اس پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

Leave a reply