ورلڈ کپ میں ہر بیٹسمین زیادہ سے زیادہ رنز اسکور کرنےاور بالر زیادہ سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے- لیکن کفیل بھائی بغیر وکٹ حاصل کیے اور رنز بنائے شہرت اور مقبولیت کی کئی وکٹیں اور سینچریاں مکمل کر چکے ہیں۔

انہوں نے کبھی بھی ملکی یا غیر ملکی میچوں میں حصہ نہیں لیا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں بڑے کرکٹر کے طور پر مشہور ہیں-

مقبولیت اور شہرت کا انہیں اس حد تک جنون تھا کہ اسے حاصل کرنےکے لئے اور کوئی چارہ نہ پاکر انہوں نے ٹرکوں، بسوں اور عمارتوں پر اپنا نام لکھنا شروع کردیا-

’ کفیل بھائی لیفٹ آرم اسپن بالر-‘ اس آئیڈیا نے انہیں مشہور کردیا- گھوٹکی کے رہنے والے کفیل بھائی پانچ جماعت پاس ہیں- ان کے والد خلیل پاکستانی قیام پاکستان کے وقت بھارت کے صوبے یوپی سے ہجرت کرکے گھوٹکی میں آکر آباد ہوئے- انہیں پاکستانی کا لقب قائداعظم محمد علی جناح نے دیا تھا- وہ گھوٹکی کے مشہور سیاسی اور سماجی کارکن رہے ہیں-

والد کی مقبولیت نے کفیل بھائی کو بھی شہرت کی جانب راغب کیا – اس جذبۂ شہرت کی تسکین کے لئے انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا- اور کھیل کے حوالے سے علاقے میں شہرت حاصل کی-

ان کا خواب تھا کہ وہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوکر ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنا نام روشن کریں- مگر نچلی سطح سے تعلق رکھنے والے کفیل کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا-

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی نہ توکرکٹ سلیکشن بورڈ سے رابطہ کیا اور نہ ہی کبھی ٹرائل دیا- ان کا خیال تھا کہ ایک غریب آدمی کے لئے قومی معاملات میں بہت ہی کم گنجائش ہوتی ہے-

اس لئے انہوں نے کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کردیا اور کرکٹ کے میدان میں بلے کے شاٹ مارنےکے بجائے شاہراہوں پر قلم اور برش سے شہرت کے شاٹ مارنے شروع کردیے۔

وہ قومی شاہراہ پر واقع اپنے شہر گھوٹکی آنے جانے والے ہر ٹرک ڈرائیور سے درخواست کرتے کہ ٹرک کے پیچھے اسے اپنا نام لکھنے کی اجازت دی جائے۔ ان کی سادگی سے متاثر ہوکر ٹرک ڈرائیور اس پرجوش نوجوان کو ایسا کرنے کی اجازت دے دیتے تھے- بعض اوقات وہ اپنے نام لکھنے کے عوض ٹرک پر پینٹگ کرنے کےلئے بھی تیار ہو جاتے۔

مسلسل میل جول اور تعلق کی وجہ سے ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ ان کی اچھی خاصی دوستی بھی ہو گئی- اور وہ پینٹگ کے دوران ملک کے چاروں صوبوں کی سیر بھی کر آئے۔ پشاور سے لاہور اور پھر کراچی تک یا سکھر سے کوئٹہ تک ہائی ویز یا اندرونی علاقوں کی سڑکوں پر دوڑنے والے ہر ٹرک کے پیچھےآج کفیل بھائی کا نام روزانہ ہزاروں نظروں کا مرکز بنتا ہے اور لوگوں کے دلوں اور دماغ میں مقبولیت کے اسکور بڑھاتا رہتا ہے-

بسوں، ٹرکوں، گھروں اور سرکاری عمارات پر رنگ کا کام کرنے والے کفیل بھائی کا کہنا ہے کہ وہ کوئی بھی لکھائی شروع کرنے سے پہلے اپنا نام لکھتے تھے، بعد میں دوسرا کام کرتے تھے۔ اس وجہ سے کئی بار ان کی پٹائی ہوئی اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ بھی برداشت کرنی پڑی-

کفیل بھائی کرکٹ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ایک آرٹسٹ بھی سمجھتے ہیں- اورکلاسیکی آرٹسٹوں کی طرح آج بھی اپنے کام کا معاوضہ منہ سے مانگ کر نہیں لیتے۔ جو جتنے پیسے دیتا ہے وہ رکھ لیتے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ ’اگر میں اپنے کام کے منہ مانگا دام لونگا تو میرے فن کی قدرو قیمت نہیں رہےگی۔‘

روڈ پر دوڑنے والی گاڑیوں پر اپنے نام کے جھنڈے گاڑنے کے بعد کفیل بھائی کو اپنا نام ہوا میں اڑانے کا شوق جاگ اٹھا- ایک بار وزیر اعظم بینظیر بھٹو بذریعہ ہیلی کاپٹر گھوٹکی آئیں تو کفیل بھائی ہیلی کاپٹر پر اپنا نام لکھنے کے لئے ہیلی پیڈ پہنچ گئے-

ابھی کفیل بھائی ’اپنی کارروائی‘ کرنے کے لئے تیاری ہی کر رہے تھے کہ سیکیورٹی عملے نے انہیں دھر لیا- انہوں نے سیکیورٹی عملے سے بہت منت سماجت کی کہ اسے نام لکھنے کی اجازت دی جائے- لیکن عملہ نے ان کی بات نہ مانی-

کفیل بھائی کے بضد رہنے پر عملے نے پکڑ کر ان کی اچھی خاصی مرمت کر کے چھوڑ دیا- او!ر اس طرح سے کفیل بھائی کا نام ہوا میں اڑنے سے رہ گیا–

کفیل بھائی کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار پاکستان ٹیلی ویژن کے مقبول ذہنی آزمائش کے پروگرام نیلام گھر میں سامعین سے جب پوچھا گیا کہ گھوٹکی کس وجہ سے مشہور ہے تو کئی شرکا نے جواب دینے کے لئےاپنے ہاتھ اٹھائے- ان سب کا ایک ہی جواب تھا- ’کفیل بھائی۔‘

ٹرکوں، بسوں، تھانے کے گیٹوں اور شہر کی مختلف عمارات پر’ کفیل بھائی لیفٹ آرم، رائٹ آرم اسپن بالر‘ کرکٹ کا نامور آل رائونڈر، کرکٹ کا بے تاج بادشاہ، جیسے جملے لکھنے والے کفیل بھائی نے ایک سال قبل اپنے بڑے بھائی پرویز احمد کے انتقال کے بعد پینٹنگ چھوڑ دی ہے-

گھر کے معاشی حالات نے کفیل بھائی آل رائونڈر کو کلین بولڈ کردیا ہے- انہوں نے پینٹنگ اور شہرت کے دھندے ترک کر کےکرسیوں کی نیٹنگ شروع کردی ہے–

انوکھے انداز سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے کفیل نے اپنا کوئی شاگرد نہیں بنایا- انکا کہنا ہےکہ ’اگر میں شاگرد بناتا تو میرا نام ختم ہو جاتا-‘ اور یہ بات وہ کسی طور پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے-

بچوں جیسی معصومیت رکھنے والے کفیل کو کسی سے پیار نہیں ہوا- ان کا کہنا ہے کہ ان کو صرف کرکٹ سے محبت ہے- کرکٹ ان کی محبوبہ ہے- بغیر جیون ساتھی کے زندگی گذارنے والے کفیل بھائی کیلئے رشتے تو کئی آئے لیکن اسے قسمت کی ستم ظریفی کہئے یا کچھ اور، وہ کسی کو نہیں بھائے۔

سانولی رنگت مناسب قد رکھنے والے اپنے مقصد سے جنون کی حد تک انسیت اور لگاؤ رکھنے والے کفیل شادی کے بارے میں کہتے ہیں: ’لڑکی والے میرا رنگ اور مشغلہ دیکھ کر لوٹ جاتے تھے۔‘ اور یوں آج چالیس سال کی عمر ہونے کے باوجود ان کی شادی نہیں ہو پائی-

فقیر صفت کفیل بھائی لوگوں سے مصافحہ کرتے وقت ان کا ہاتھ چومتے ہیں- ان کو غصہ اس وقت آتا ہے جب ان کو کوئی ہاتھ چومنے نہیں دیتا- کفیل بھائی بتاتے ہیں کہ ایک بار وفاقی وزیر انور سیف اللہ گھوٹکی آئے تو وہ ان سے ملنے کے لئے اسٹیج پر پہنچ گئے اور وزیر کا ہاتھ چومنے کی کوشش کی جس پر اسٹیج پر براجمان سردار صاحبان ناراض ہو گئے اور انہیں جھاڑ دیا- تب سے انہیں سرداروں سے نفرت ہو گئی ہے-

وزیر اعلی سندھ علی محمد مہر کے آبائی ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے کفیل بھائی کو خواہ سردار، وزیر اور بیوروکریسی قدر کی نظر سے نہ دیکھتی ہو لیکن گھوٹکی کے باسیوں کے لئے وہ احترام اور محبت کے قابل شخص ہیں- وہ کفیل بھائی سے مل کر خوشی محسوس کرتے اور سمجھتے کہ وہ گھوٹکی کی پہچان ہیں۔

کرکٹ کی پِچ سے تو کفیل بھائی ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن زندگی کی پِچ پر وہ گھریلو مسائل کی وکٹ حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں-

کرکٹ اور پینٹگ کے ذریعے لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کے خواہشمند کفیل نے اب دونوں کام چھوڑ دیے ہیں- لیکن ان کی زندگی، لگن اور مستقل مزاجی کی وجہ سے سبق آموز بن گئی ہے کہ معمولی کام کرکے بھی غیر معمولی شہرت حاصل کی جا سکتی ہے-

۲۰۱۲ کی تحریر بی بی سی ڈاٹ کام سے

Shares: