وزیرِ اعظم شہباز شریف نےدھرنوں میں قانون پامال کرنے والوں کو سزائیں دینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔احتجاج کے نام پر جلاؤ گھیراؤ،تشدد آتشیں اسلحہ کا استعمال کرنے والوں کی لسٹیں جدید ترین جیو فینسنگ اور متعلقہ اداروں کی مدد سے بنائی جارہی ہیں۔اور اسکے بعد سوشل میڈیا پر جن جن اندرونی و بیرونی "کرداروں” نے اداروں کے خلاف فیک نیوز پوسٹیں لگائیں یا لگا رہے ہیں اور شیئر کی ہیں یا کر رہے ہیں،انکے خلاف حکومت نے سائبر کرائم ترمیمی بل کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کر لیا، نئے مسودے میں اہم تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کے پاس ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق مواد کو بھی ہٹانے کا اختیار حاصل ہو گا، جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلانے، خوف و ہراس پیدا کرنے والوں کو 5 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔اتھارٹی کے پاس فوج اور عدلیہ کے خلاف آن لائن مواد کو ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا، مذہبی فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانے سے متعلق شیئر کیے گئے مواد کو ہٹانے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔مسودے کے مطابق کسی شخص کو ڈرانے، جھوٹا الزام لگانے اور پورنو گرافی سے متعلق مواد کو بھی ہٹایا جا سکے گا، ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کی دیگر اقسام کو فروغ دینے سے متعلق مواد بھی ہٹایا جا سکے گا۔مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کا ایک چیئرمین اور 6 اراکین ہوں گے، اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکے گا۔
فیک نیوز یا جھوٹی خبریں موجودہ دور کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی آسانی نے جہاں معلومات تک رسائی ممکن بنائی ہے، وہیں غلط معلومات یا افواہوں کا پھیلاؤ بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ فیک نیوز نہ صرف عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں بلکہ یہ سماجی، سیاسی، اور معاشی استحکام کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں فیک نیوز کے اثرات زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں کیونکہ یہاں خواندگی کی شرح کم ہے اور سوشل میڈیا کا استعمال غیر ذمہ دارانہ حد تک بڑھ چکا ہے۔ جھوٹی خبریں اکثر مذہبی منافرت، سیاسی پولرائزیشن، اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دیتی ہیں، جس سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔سودے کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی، اتھارٹی کو سوشل میڈیا سے مواد بلاک کرنے یا ہٹانے کا اختیار ہو گا، اتھارٹی قانون نافذ کرنے والے اداروں یا کسی شخص کے خلاف مواد ہٹانے کے احکامات جاری کر سکتی ہے۔اس ترمیمی بل کا مقصد فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہے۔
بل میں دی گئی تفصیلات کے مطابق:1. تعریف اور دائرہ کار: بل میں فیک نیوز کی واضح تعریف کی گئی ہے، جس کے تحت ایسی تمام معلومات شامل ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ یا گمراہ کن ہوں۔2. سزائیں: فیک نیوز پھیلانے والوں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، جن میں بھاری جرمانے اور قید شامل ہیں۔3. آن لائن پلیٹ فارمز پر کنٹرول: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نگرانی کو مزید سخت کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔4. ریگولیٹری باڈی: ایک نئی ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو جھوٹی خبروں کے معاملے کی نگرانی کرے گی۔1. قومی مفاد کا تحفظ: اس بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فیک نیوز قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اور یہ اقدام عوام کو غلط معلومات سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔2. عوامی آگاہی: بل کے ذریعے عوام کو درست معلومات فراہم کرنے اور افواہوں سے بچانے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جائے گا۔3. بین الاقوامی مثالیں: کئی ممالک، جیسے سنگاپور اور فرانس، پہلے ہی فیک نیوز کے خلاف قوانین متعارف کر چکے ہیں۔تاہم، اس بل پر تنقید بھی کی جا رہی ہے:1. آزادی اظہار پر قدغن: تنقید کرنے والے اس بل کو آزادیِ اظہار پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، حکومت فیک نیوز کے بہانے مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے۔2. اختیارات کا غلط استعمال: اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومتی ادارے اپنی مرضی سے کسی بھی خبر کو فیک نیوز قرار دے کر تنقیدی صحافیوں اور کارکنوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔3. بل میں فیک نیوز کی تعریف اگرچہ دی گئی ہے، مگر یہ اتنی وسیع ہو سکتی ہے کہ اس کا اطلاق حقائق پر مبنی رپورٹنگ پر بھی ہو جائے۔4۔ پاکستان میں پہلے سے ہی ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں، اور ایک نئی اتھارٹی کے قیام سے مزید بیوروکریسی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں. عوام کو ڈیجیٹل آگاہی فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں یہ ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں میڈیا لٹریسی کو فروغ دیا جائے تاکہ لوگ جھوٹی خبروں کی پہچان کر سکیں۔اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جیسے کہ جھوٹی خبروں کی نشان دہی کے لیے الگورتھم بہتر بنانا اور ایسے اکاؤنٹس بند کرنا ہونگے جو مسلسل غلط معلومات پھیلاتے ہیں تاکہ ملک میں افراتفری کی صورت حال پیدا نہ ہونے دی جائے۔
پاکستان کا سائبر کرائم ترمیمی بل فیک نیوز کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک اہم قدم ہو سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ اس پر عملدرآمد کس حد تک شفاف اور منصفانہ ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل پر تنقید کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں مزید اصلاحات کرے تاکہ یہ آزادیِ اظہار کے حق کو محدود کیے بغیر فیک نیوز کو روک سکے۔اس کے ساتھ ساتھ، یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت عوام کو ڈیجیٹل میڈیا کے صحیح استعمال کی تربیت دے تاکہ معاشرہ ہی جھوٹی خبروں کے خلاف مزاحمت کر سکے۔ قانون سازی اپنی جگہ اہم ہے، لیکن فیک نیوز جیسے پیچیدہ مسئلے کا مستقل حل عوامی شعور کی بیداری میں مضمر ہے۔
۔بحرحال ! ملکی وسیع تر مفاد میں انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں فیک نیوز کے مسئلے کے حل کے لئے سخت قوانین نہ صرف بنانے کی حدتک محدود رہیں، بلکہ ان پر آہنی ہاتھوں سے عملدرآمد بھی ضروری ہے۔۔








