دال بھی مہنگی ہوگئی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان میں سالانہ بجٹ عام طور پر ترقیاتی اہداف، عوامی ریلیف اور خزانے کے توازن کا آئینہ ہوتا ہے مگر حالیہ بجٹ جسے ’ترقی کا بجٹ‘ قرار دیا گیا ہے، متوسط اور نچلے طبقے کے لیے مشکلات کا نیا در وا کر رہا ہے۔ اس بجٹ میں جہاں دفاعی اخراجات میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے وہیں ٹیکسوں کا ہدف ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 12.9 کھرب روپے تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب مہنگائی کی شرح 7.5 فیصد تک اضافے کی پیشگوئی کی جا چکی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید پہلے ہی کم ترین سطح پر ہے۔
حکومتی دستاویزات کے مطابق درآمدی دالوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.25 فیصد سے بڑھا کر 1.85 فیصد کر دی گئی ہے۔ دال جو ہر غریب پاکستانی کے دسترخوان کی واحد عزت ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی آسودہ حال لوگوں کی چیز بنتی جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب دال چنا 250–280 روپے میں دستیاب تھی مگر اب اس کی قیمت 360 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ دیگر اقسام، جیسے مسور، ماش اور مونگ بھی مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پیکٹ دودھ، چینی، گھی، چاول، آٹا سب پر بلاواسطہ سیلز ٹیکس کا نفاذ غریبوں کی زندگی اجیرن بنا رہا ہے۔
مہنگائی صرف خوراک تک محدود نہیں رہی بجلی، گیس اور متبادل توانائی جیسے شعبے بھی اب عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہے ہیں۔ سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر کے حکومت نے قابلِ تجدید توانائی کا خواب بھی مہنگائی کے کچرے دان میں پھینک دیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف توانائی کے بحران میں اضافہ کرے گا بلکہ ان خاندانوں کے لیے بھی دھچکا ہے جو بلوں سے بچنے کے لیے سولر نظام کی جانب بڑھ رہے تھے۔
جہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور پنشن میں 7 فیصد کا اعلان کیا گیا ہے، وہیں نجی شعبے، مزدور طبقے، دیہاڑی داروں اور چھوٹے کاروباری افراد کے لیے نہ کوئی مراعات دی گئیں نہ کسی ریلیف کی کوئی گنجائش رکھی گئی ہے۔ حکومت کے ترقیاتی دعوے اُس وقت کھوکھلے لگتے ہیں جب عام آدمی اپنی تنخواہ سے مہینہ مکمل نہیں کر پاتا اور بچے دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔
بجٹ میں محصولات بڑھانے کی حکمتِ عملی غیرپیداواری طبقات پر بوجھ ڈال کر کی گئی ہے، بجائے اس کے کہ ٹیکس نیٹ وسیع کیا جائے یا بے نامی جائیدادوں اور آف شور اثاثوں پر ہاتھ ڈالا جائے۔ دال اور دودھ پر ٹیکس لگا کر عوام سے قربانی مانگنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست نے سہولت کے بجائے آسان شکار کو چنا ہے ، وہ طبقہ جو سڑک پر آ کر احتجاج بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی عدالت سے رجوع کی سکت رکھتا ہے کیونکہ عدالتوں سے عام آدمی کو کبھی ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ عدلیہ بھی مراعات یافتہ طبقہ پر مشتمل ہے ۔
اس سب کے باوجود حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بجٹ معیشت کو استحکام دے گا، معاشی اصلاحات کو فروغ دے گا اور قرضوں پر انحصار کم کرے گا۔ مگر جب بنیادی اشیاء ہی عوام کی پہنچ سے دور ہو جائیں، جب بجلی، گیس، دال، دودھ اور چینی پر ٹیکس لگ جائے تو استحکام کے خواب عام آدمی کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔
یہ بجٹ خزانے کے لیے تو ممکن ہے کہ مثبت ہومگر عوام کے لیے یہ ایک زخم ہے جو ہر دن تازہ ہوتا ہے۔ ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ ٹیکس اصلاحات کا مطلب صرف ریونیو کا حصول نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ بوجھ کس پر ڈالا جا رہا ہے۔ جب دال بھی مہنگی ہو جائے تو اس کا مطلب صرف خوراک کی قیمت میں اضافہ نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کی رسوائی ہے، ایک پوری قوم کی بنیادی ضرورتوں کی توہین ہے۔
ایسے میں سوال صرف یہ نہیں کہ لوگ کیا کھائیں گے بلکہ یہ ہے کہ وہ آخر جیئیں گے کیسے؟ دال وہ آخری چیز تھی جو غریب کے چولہے کو جلائے رکھتی تھی، اب وہ بھی چھن گئی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ جب چولہا بجھ جائے تو صرف گھر نہیں، ریاستیں بھی ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ دال کی مہنگائی محض ایک معاشی مسئلہ نہیں بلکہ عوامی اعتماد کے جنازے کی پہلی گھنٹی ہے۔ اگر ریاست کو اب بھی ہوش نہ آیا تو آنے والا وقت صرف احتجاج کا نہیں، خدانخواستہ بغاوت کا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بغاوت دال کے پیالے سے شروع ہوگی اور سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گی۔