ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اور ہمارا مستقبل
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک محفوظ، خوبصورت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، لیکن افسوس کہ اس کے باوجود ہم غیر محفوظ ہیں اور ہماری اکثریتی آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کی زبان پر ہے، لیکن افسوس کہ مستقبل کی فکر کسی کو نہیں۔

ہماری اجتماعی سوچ ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ بحیثیت قوم ہماری کوئی ٹھوس ترجیحات نہیں۔ جب تک ہم قومی سوچ پیدا نہیں کرتے، ہم محض سیاستدانوں کے ان الفاظ کو دہراتے رہیں گے کہ "پچھلی حکومتوں نے یہ کردیا، وہ کردیا اور ہم یہ کریں گے”۔ یہی تکرار اگلی کئی دہائیوں کی نوید ہے۔ آئیے، اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔

پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جہاں ہر مسئلے کا حل وقتی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ یہاں نہ کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نظر آتی ہے، نہ سنجیدہ حکمت عملی اور نہ ہی کوئی قومی وژن۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صرف وقتی ریلیف اور ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی کا نتیجہ ہے، جو اب ہمارے ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکی ہے ، خواہ وہ تعلیم ہو، صحت ہو، زراعت ہو یا انفراسٹرکچر۔

ہر سال بارشوں کے موسم میں سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں، سیلاب آتے ہیں، لوگ جانیں گنواتے ہیں اور حکومت صرف فوٹو سیشنز اور بیانات کے ذریعے دعویٰ کرتی ہے کہ سب کچھ قابو میں ہے۔ مگر اگلے سال پھر وہی حالات، وہی مسائل اور وہی بے بسی سامنے آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری ترجیحات صرف وقتی اور سطحی ہوتی ہیں۔

ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ عدالتوں، اسمبلیوں، میڈیا اور جلسوں میں صرف اقتدار کی جنگ چل رہی ہے۔ عوامی فلاح، روزگار، مہنگائی، صحت، تعلیم اور عدل و انصاف جیسے حقیقی مسائل پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ عوام کی قسمت گویا صرف ووٹ ڈالنے تک محدود ہو چکی ہے۔

قوم اس وقت شدید ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ ہر روز ایک نیا بحران، ایک نئی بے یقینی۔ نوجوان مایوس ہے، کسان پریشان ہے، مزدور بے روزگار ہے۔ ایسے میں حکومتوں کا صرف وقتی اقدامات پر اکتفا کرنا ناقابل قبول ہے۔

’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے اپنے اداروں کی ساکھ تباہ کر دی ہے۔ ہر بحران کے بعد عوام کو جھوٹے وعدے سنائے جاتے ہیں، اور پھر اقتدار کی مستی میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ نہ کہیں کوئی احتساب ہے، نہ جواب دہی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو جھنجھوڑیں۔ ہمیں مستقل حل، مؤثر منصوبہ بندی، اور پالیسیوں میں تسلسل کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں سیاسی استحکام، ادارہ جاتی اصلاحات اور عوامی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔

ورنہ کل کا مؤرخ صرف یہ لکھے گا کہ”یہ ایک ایسی قوم تھی جو وقتی فیصلوں، ذاتی مفاد اور سیاسی لڑائیوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔”

اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں اور ملک کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ سب کچھ ممکن ہے، لیکن صرف قومی سوچ، سنجیدہ منصوبہ بندی اور عمل درآمد سے — نہ کہ ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی سے۔

Shares: