اسلام آباد: ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی کررہے ہیں عدالت نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لی۔

باغی ٹی وی: سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں شروع ہوگئی ہےسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف فل کورٹ سماعت شروع ہوگئی ہے، اور سرکاری ٹی وی سے سماعت براہ راست نشر کی جارہی ہے،سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کررہا ہے-

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فُل کورٹ کے دیگرارکان میں جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس اعجازالحسن، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیرہوئی، تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکےچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواستیں ہیں، اور اس کیس میں دلائل کون کون دے گا؟ خواجہ طارق رحیم اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیے گا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ماضی کو دفن کردیں، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے معاملہ سنا ہی نہیں،جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہوگا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسرسائز نہیں ہوگی؟

درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں؟جسٹس عائشہ ملک نے خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا اس پر آپ کیا دلائل دیں گے؟ جس پر وکیل خواجہ طارق نے کہا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اس میں پہر دیگر رولز ہیں اس کا کیا ہوگا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ کوسننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمار مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، پارلیمنٹ قادر مطلق(omnipotent) ہے کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا آپ فوکس رکھیں۔

وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی کو بھول جائیں، آج کی بات کریں، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کاحصہ ہوں گے، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کے فل کورٹ بنایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگر قانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، قوم کا وقت بڑا قیمتی ہے خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ 1980 کے رولز کا حوالہ دینا چاہتا ہوں-

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنے دلائل دیں اور بینچ ممبر کے سوال کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ملک کی عوام کے 57ہزار مقدمات انصاف کے منتظر ہیں، آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پڑھیں وہ الفاظ استعمال نا کریں جو قانون میں موجود نہیں ہیں خواجہ طارق رحیم نے 1980 کے رولز کا بھی حوالہ دیا۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ پہلے قانون پڑھ لیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کس رول کا حوالہ دے رہے ہیں۔

وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولزبنارکھے تھے، لیکن پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب جوکچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں، آپ آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرٹیکل 191کو پڑھیں خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ شییڈول کےتحت سپریم کورٹ کا ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے قانون پڑھیں پھر تشریح کریں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے خواجہ طارق رحیم کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کارنہیں تھا یا اختیار نہیں تھا چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ جو ادھرادھر کی باتیں کررہے ہیں اس پرالگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پرفوکس کریں،وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف اختیار کیا کہ انتظامی طور پر کیسے چلانا ہے، فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز بیٹھ کر رولز بناتے ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےریمارکس دیئےکہ سپریم کورٹ کے اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں،کیا آپ ایک آفس کو اتنےاختیارات ہونے کی حمایت کرتے ہیں وکیل طارق رحیم نے کہا کہ بینچز سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کے کرنےکا ہے، سپریم کورٹ کئی دہائیوں سے اپنے رولز خود بناتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ سپریم کورٹ رولز کو غیرآئینی قرار دے رہے ہیں، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں، کیا جہاں اختیار ایک یا 3 ججز کا ہے وہ غیر آئینی ہے خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ میرانکتہ ہےکہ رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار ہے پارلیمان کا نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں، خواجہ صاحب میں آپ کیلئے معاملات آسان بنانا چاہ رہا ہوں لیکن لگتا ہے آپ ایسا نہیں چاہ رہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ سوال نوٹ کرلیں، سپریم کورٹ کا اپنا اختیارہے کہ وہ اپنے اختیارات کواستعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل میں اگر قانون سازی ہوئی تو آپ پھر چیلنج کر دیجیے گا خواجہ طارق نے کہا کہ 1980 کے رولز فل کورٹ نے بنائے تھے اور وہ رولز درست ہیں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین وقانون کو اس قانون نے غیر موثر کر دیا ہے-

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور سے متعلق ہے، اس قانون سے عدالت کواپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، عدالتی اختیارات کا فیصلہ کس نے کرنا ہے، میرے مطابق پارلیمنٹ عدالتی اختیارات میں مداخلت کررہی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ہے، اگر پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط ہے، میں یہ سمجھا ہوں آپ کی بات سے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے جس میں آرٹیکل 184کی شق کے استعمال کا طریقہ کار موجود ہے، اس فیصلے میں اصول طے کیا گیا کہ کوئی بینچ آرٹیکل 184کی شق تین کے استعمال کے لیے چیف جسٹس کو معاملہ بھیج سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ باربارمیں کا لفظ کیوں استعمال کر رہے، آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں، کیا آپ کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے، خواجہ صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کون سا عوامی مفاد ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی، کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے، کیا پارلیمان نئے اختیارات دے کر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاورکوپس پشت ڈال سکتی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کوقبول ہے کہ ایک بندہ بنچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے؟خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے-

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے چیف جسٹس پاکستان نے کہا سوال لکھ لیں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے تو عدالتی اختیار کو ختم کر لیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے قانون بناکر جوڈیشل پاور کا راستہ بند کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پبلک انٹرسٹ کی تعریف کیا ہے اور آپ کس کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو ناقابل اجتناب چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں۔

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے تو اختیار لے لیا ہے جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سازی سے چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کردیا گیا ہے طارق رحیم کے جواب پر چیف جسٹس نے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پھر جواب دینے بیٹھ گئے ہیں،وکیل خواجہ طارق نے جواب دیا کہ آئینی مقدمات میں کم ازکم پانچ ججزکے بنچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس شق پرآپ کواعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو واپس لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو ختم کیا گیا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ متفق ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان ماسٹر آف روسٹر ہیں خواجہ طارق رحیم نے دلائل میں کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ اختیار پارلیمنٹ استعمال نہیں کر سکتا۔

خواجہ طارق نے سوال اٹھایا کہ کیا تین ججز بیٹھ کر آئینی تشریح نہیں کر سکتے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہیں کہا جا رہا کہ جج قابل نہیں قانون سازی میں تعداد کی بات ہورہی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کے تین رکنی بنچ تشکیل دینے پرکسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا؟ یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ماسٹر آف دی روسٹر والا چیف جسٹس کا اختیارغیر آئینی تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ کا سیکشن چار1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیاگیا، کیا اس قانون سازی کیلئے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 17 ججز فل کورٹ کے ذریعے اختیارات کو ریگولیٹ کرسکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ نہیں کرسکتی، خواجہ طارق رحیم نے جواباً کہا کہ میں ایسا نہیں کہہ رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں اپنے ساتھی ججز سے درخواست کر رہا ہوں اور آپ ہماری مدد کے لیے آئے ہیں، اگر ہرطرف سے سوالات کی بمباری ہوگی تو کیس نہیں چل سکے گا، آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کر رہا، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیاراستعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کرسکتی ہے جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں جواب دینے کی ضرورت نہیں-

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ میں سوال آسان بنا دیتا ہوں، آپ اپنے موکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اچھی چیز غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیدھا سا سوال پوچھا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی، جس پر خواجہ طارق نے جواب دیا کہ اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہےاوریہ غیرآئینی ہے-

چیف جسٹس نے کہا کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے سو سوالات میں اصل مدعا تو گم ہوجائے گا آپ چاہیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس فوجی آمر کا ایک قانون تھا، کیا فوجی آمر کا قانون درست ہے یا پارلیمنٹ کی کی گئی قانون سازی درست ہے جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ دلائل دیتے ہوئے آگے بڑھیں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیرونی جارحیت کے خطرات کو روکنے کے لیے عدلیہ کی خود مختاری کا تصور ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نہیں چاہتے آپ ہر سوال کا جواب دیں اور ہم یہاں ایک دوسرے سے بحث کرنے نہیں آئے، ایک سیکشن اور پڑھ لیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا ایک سوال اور ہے، کیا سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات پارلیمنٹ کو سونپنا اختیارات کی تقسیم کے تصور سے متصادم نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی ایک آئینی آرٹیکل کا حوالہ نہیں دیا، ہم نے خود سے ازخود نوٹس نہیں لیا، آپ خود عدلیہ کے دفاع کے لیے رونما ہوئے ہیں اور اچھی بات ہے آپ میرے حقوق کی بات کر رہے ہیں لیکن یہاں سوال کسی کے حقوق کا نہیں بلکہ آئینی سوال ہے، میرے دوست ججز کے سوالات بہت اچھے ہیں لیکن ابھی صرف سوالات نوٹ کرلیں۔

چیف جسٹس نے وکیل خواجہ طارق کو ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہر چیز کا آئینی جواب دینا ہوگا، اب تک ایک بات بھی نہیں کہی کہ کیس طرح یہ قانون آئین سے متصادم ہے، ہمارے حقوق پر پارلیمنٹ نے زبردست وار نہیں کیا، آپ ڈیفنڈر کے طور پر رونما ہو گئے ورنہ یہ جنگ میری ہے، آپ رائے دینے کی بجائے آئینی بحث کریں، یہ اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، قانون پارلیمنٹ نے بنایا۔

وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہوگئےتو چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لئے محدود کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ قانون عوامی مفاد کے لئے بنایا گیا یا ذاتی مفاد کے لئے ، سوالوں کے جواب بعد میں تحریری طور جمع کروا دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے ساتھیوں کے سوالات بہت اچھے ہیں، ان پر آرام سے غور کریں، آپ نے کہا کہ اہم کیس ہے، میں نہیں لگاتا میری مرضی، 10 سال کیس نہیں لگاتا، اگر کہہ دیا مقدمہ 14 دن میں لگے گا میں کہوں میری مرضی، یہ عدالت عوام کے ٹیکس پر چلتی ہے، یہ قانون اڑا دیں تو چیف جسٹس کو فائدہ ہوتا ہے، میری رائے میری مرضی کو چھوڑیں، بتائیں آئین و قانون سے کیسے متصادم ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں از خود نوٹس میں اپیل کا حق دینا غیر آئینی ہے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں بھی یہ قانون غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ یہ ذاتی رائے کیا ہوتی ہے، پلیز قانون کی بات کریں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اس قانون کو درست مان لیں تو پوری سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں چلی جائے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اختیارات کی تقسیم کے قانون کے خلاف ہے، اس قانون کو درست مان لیں تو پھر پارلیمنٹ عدلیہ سے متعلق کوئی بھی قانون بنا سکتی ہے جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر از خود نوٹس میں اپیل کا حق غلط ہے تو پھر دیگر مقدمات میں نظرِ ثانی کا حق کیوں ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیارمحدود کرنا چاہتے ہی جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ سپریم کورٹ کےرولزمیں ترامیم کرسکتی ہے-

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنےجوابدہ نہیں بنانا چاہتے، ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، میں آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں توآپ کیا کریں گے، آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے،ریکوڈک کیس میں ملک کو6ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تونہیں لوں گا، آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کروں گا میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا حتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں،ہر کوئی اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہے ایسے اختیارات نہیں چاہتا جس سے ساکھ متاثر ہو .کسی قانون کی پسندیدگی اور اس کے آئینی ہونے میں فرق ہے کئی قانون مجھے بھی پسند نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلط ہیں عدلیہ کے حقوق متاثر ہوتے ہیں تو نوٹس لے لیتے ہیں –

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ میرے اور آپ کے حقوق کا مسئلہ نہیں آئین اور عوام کا مسئلہ ہے بین کی تشکیل کا پرانا طریقہ کار تمام اختیارات ایک شخص کو سونپ دیتا ہے ،کیا چیف جسٹس کو بلا شرکت غیر بینچ تشکیل دینے کے لامتناہی اختیارات دینا درست ہے؟جسٹس مندو خیل نے کہا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے-

دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل شروع

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کروں گا میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا،سپریم کورٹ میں57ہزارکیسز التوا کا شکار ہے، پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی ہے تو سمجھ کیوں نہیں رہے، اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتاٸیں،اور آئین کے مطابق دلائل دیں اس ملک میں مارشل لاء بھی لگے اس دوران بھی فیصلے آئے، مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار لینے سے آرٹیکل 9 کیسے متاثر ہو گیا؟امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ چیف جسٹس پاکستان کا اختیار متاثر ہوا ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مسکراتے ہوئے ان سے کہا کہ میں نے تو آپ کو اپنا وکیل نہیں کیا، انگریزی میں کہا جاتا ہے I, Me and Myself اس کو یہاں استعمال نہ کریں-

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل نے عدلیہ کی آزادی کو آگے بڑھایا ہے،دنیا میں کہیں چیف جسٹس کے پاس ایسے اختیارات نہیں ،چیف جسٹس کے اختیارات کو عدلیہ کی آزادی کے ساتھ نہ جوڑا جائے،عدالت میں مقدمات عوام کے ہیں اور عوام کا فورم پارلیمنٹ ہے،اگر پارلیمنٹ عوام کے مقدمات کی صحیح سماعت کیلئے قانون سازی کرتی ہے تو کیا غلط ہے؟ اگر پارلیمنٹ عدلیہ کوصحیح چلانے کے لئے قانون سازی کرے تو کیا وہ غلط ہے؟ –

جسٹس عائشہ ملک نے اعتراض اٹھایا کہ یہ ایکٹ رہتا ہے تو کیس کے خلاف اپیل کون سا بینچ سنےگا، کیا فل کورٹ کے فیصلے کا اطلاق 5 رکنی بینچ پر نہیں ہوگا چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل 184/3کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے، آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئرججز کے ساتھ بانٹ دیا گیا، اختیار باٹنے سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، پارلمینٹ کا یہ اقدام توعدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، چیف جسٹس نے 2 سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔

جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہوسکتا فل کورٹ کر سکتا ہے جس پر جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سےآنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ درخواست گزار کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے جس پر آپ 184/3 میں عدالت آئے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پوری دنیا میں چیف جسٹس ماسٹر آف دی روسٹر نہیں ہوتا، چیف جسٹس کے پاورز کو چھیڑنے سے جوڈیشری خطرے میں پڑ جاتی ہے، اس کا بھی جواب دیں، پاکستان میں قانون پارلیمنٹ سے آتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہرسوال کا جواب نہ دیں صرف اپنے دلائل دیں جسٹس منصور شاہ نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خلاف آئین قانون سازی سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتا دیں پھر کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیرالتواء مقدمات کی تعداد57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں اپیل کا حق دیا جا رہا ہے تو بہت اچھی بات ہےچیف جسٹس نے امتیاز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امتیاز صدیقی صاحب میں آپ کےدلائل نہیں سن پا رہا، سوالات کوٹ کریں اور جوابات دیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ باہر کی دنیا میں بنیچ چیف جسٹس نہیں بناتا، بیلٹ کے ذریعے بنیچز کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ امتیازصاحب لگتاہےآپ دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر اس قانون کی توثیق ہوئی تو یہ تاریخ کی بد ترین قانون سازی ہو گی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 5 رکنی بینچ بیٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ غلط تھا؟چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر 3 رکنی بینچ پر 5 رکنی بینچ کا فیصلہ لاگو ہوتا تو ججز کبھی اختلافی فیصلہ نہ دے سکتے۔

جسٹس منصور نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ ہمارے سوالات لکھ رہے ہیں؟ کہاں لکھ رہے ہیں؟وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ سارا قانون غیر قانونی ہے، پارلیمنٹ کو اختیار نہیں تھا جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا دنیا میں ایسا ہے کہ عدالتیں آزادی سے کام نہ کر سکیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ قانون تو اختیارات کے استعمال میں شفافیت لا رہا ہے چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا آپ سے سوال نہیں کریں گےوکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میرا بنیادی حق ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیار میں تجاوز نہ کرے-

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کون یہ قانون بنانے کا اختیار رکھتا ہے، اگر پارلیمنٹ یہ قانون سازی کرتی ہے تو یہ عدلیہ میں مداخلت ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے سول کیا کہ ہم مرضی کے بینچ بنائیں کیس نہ لگائیں تو ٹھیک ہے؟ اگر ہم 17 غیر منتخب افراد بیٹھ کر رولز بنائیں تو ٹھیک ہیں؟ اگر منتخب نمائندے قانون سازی کریں تو کیا برائی ہے؟-

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر ججز مجھے سانس لینے دیں تو میں جواب دوں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے کہ میرے سارے کولیگز میرے خلاف ہو گئے ہیں جسٹس مسرت ہلالی نےسوال کیا کہ اس طرح کےقانون کی مثالیں کسی اورملک کی موجود ہیں؟ یہ بتائیں کہ آپ ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے؟ یہاں کیوں آئے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر اختیار پارلیمنٹ کو نہیں دیا جا سکتا، باقی ممالک میں چیف جسٹس نہیں بلکہ بیلٹ سے بینچ بنتا ہے، یہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ تو سپریم کورٹ کو مضبوط بناتا ہے، دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک دن درخواست آئے، اگلے روز چیف جسٹس بینچ بنا دے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ درخواست گزار کہہ رہے ہیں کہ قانون اچھا ہے مگر سپریم کورٹ کو خود بنانا چاہیے تھا۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہاکہ جب مروجہ طریقہ کار نہ اپنایا جائے تو پارلیمنٹ کا قانون بھی غلط ہو گا، غلط طریقہ کار سے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو غیر مؤثر کر سکتی ہے چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، صرف اپنے دلائل دیں۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پہلے وکیل کو دلائل دینے دیئے جائیں پھر ہم سب سوال کر لیں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ مناسب نہیں کہ ججز سماعت میں اپنی رائے دیں، آپ کو پتہ ہے عوام کا کتنا پیسہ لگ رہا ہے؟ ہمیں قانون نہ سمجھائیں کہ چیف جسٹس کا تقرر کیسے ہو گا، اپنے کیس سے متعلق دلائل دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا سپریم کورٹ قانون سے بالا ہے یہ کہاں لکھا ہے؟ اس میں دو بنیادی باتیں ہیں، اس فیصلے میں جو لکھا ہے وہ آپ کی دلیل کی نفی کر رہا ہے، ہمیں ڈرائیں مت صرف دلائل دیں، وکیل کاکام ہے بتائے اس فیصلے کے فلاں صفحے پریہ لکھا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا اگر مجھے نہیں بولنے دیا جائے گا اور تضحیک ہوگی تو میں جا رہا ہوں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ آپ عوام کا خیال کریں، امتیاز صدیقی نے جواب دیا میں عوام کی ہی بات کر رہا ہوں، مجھے بات ہی نہیں کرنے دی جا رہی تو میں چلاجاتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کی مرضی ہے جانا چاہتے ہیں تو جائیں ورنہ موجودہ کیس تک محدود رہیں، نظرثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیارکوبڑھا دیا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کی دلیل سے اتفاق کروں اور درخواست مسترد کر دوں۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت میں وقفہ کردیا، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بریک کے بعد اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹروم پر بلا لیا تو اٹارنی جنرل منصورعثمان نے عدالت سے استدعا کی کہ میں آدھا گھنٹہ عدالت میں دلائل دوں گا، میں نے شام کو سندھ طاس معاہدے کے معاملے پر ویانا جانا ہے، تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے دلائل شروع کئے اور کہا کہ ہم یہاں انتظامی اختیارات کی بات کر رہے ہیں، یہ قانون عدلیہ کومزید جمہوری اقدار کا حامل بناتا ہے، یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، یہ قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، اور اس قانون سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ، آٸین پاکستان 1973میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا، صدر کی منظوری سے قوانین بنتے تھے تو کیا صدر کا اختیار تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کا صوابدیدی اختیار تھا یا ایڈوائس پر منظوری ہوتی تھی، آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر بات شروع کی تھی، اور درخواست گزار کے وکیل کے نقاط پر بات شروع کردی، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے۔

اٹارنی جنرل نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ عوامی خدشات کو دور کرتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت عوامی مفاد کے کیسز سنے جا سکتے ہیں، درخواست گزاروں کا اعتراض قانون پر نہیں، طریقہ پرہے، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہےکہ کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہائیکورٹ سنے تو کیا مناسب ہوگا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کیس میں 184(3) کی شرائط پوری ہوتی ہیں۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ 184(3) میں حقوق کے نفاذ کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق قانون درخواست گزاروں کی سہولت کیلئے بنایا گیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک فراہمی بنیادی حق ہے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 184/3 میں ہمیں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔

حکومت کی ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا

حکومت کی ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا

دوران سماعت وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف اپنا تحریری جواب اٹاری جنرل کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں،وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنےکی استدعا کردی کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں-

وفاقی حکومت نے تحریری جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل191 کے نیچے قانون سازی کرسکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی ایکٹ کے تحت کوئی اختیار سپریم کورٹ کا واپس نہیں کیا گیا، میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت براہ راست نشر کرنے پر اتفاق کیا ہے،اس حوالے سے اجلاس بھی ہوا فل کورٹ اجلاس میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے پر اتفاق ہو گیا ہے اور عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کے لیے کمرہ نمبر ایک میں کیمرے لگا دیے گئے جبکہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت ایک کی گیلری میں کیمرے لگا دیئے گئے ہیں –

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی کارروائی دکھانے کے لیے 5 کیمرے کمرہ عدالت نمبر ایک میں نصب کر دیے گئے ہیں پی ٹی وی کے چار کیمروں کا رخ بینچ کی جانب ہے جبکہ پانچویں کیمرے کا رخ کمرہ عدالت میں بیٹھے حاضرین کی جانب ہے۔ کمرہ عدالت میں وکلاء کی بڑی تعداد موجود ہیں جبکہ کمرہ عدالت نمبر 1 کی تمام نشستیں بھر گئی ہیں ملکی اور غیر ملکی میڈیا نمائندگان کی بھی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

Shares: