کبھی کچھ دن تاریخ میں ایسے آتے ہیں جن کے ہونے سے زیادہ ان کا "نہ کھلنا” ہمیں یاد رہ جاتا ہے۔ 13 جولائی 1931ء بھی ایسا ہی ایک دن ہے۔ سری نگر کی فضا اُس دن خاموش نہ تھی، لیکن آج تک گونجی جا رہی ہے۔ جیل کے باہر سینکڑوں کشمیری جمع تھے۔ وہ کسی احتجاجی مارچ، کسی ہنگامہ آرائی، یا کسی بیرونی سازش کے لیے نہیں آئے تھے۔ وہ فقط ایک اذان مکمل کرنا چاہتے تھے۔ مگر ریاست نے یہ سادہ ترین مذہبی حق بھی برداشت نہ کیا۔ اذان شروع ہوئی، گولی چلی۔ ایک نوجوان شہید ہو گیا۔ دوسرا آگے بڑھا، پھر گولی۔ یہاں تک کہ بائیس نوجوانوں نے اذان کے ہر جملے پر اپنی جان دے دی، تب جا کے اذان مکمل ہوئی۔
یہ اذان، صرف نماز کی دعوت نہیں تھی۔ یہ اذان، استبداد کے خلاف مزاحمت تھی۔
یہ بغاوت نہیں، حق کی بازیافت تھی۔
لیکن اُس دن جو دروازہ بند تھا—انصاف کا، آزادی کا، انسانیت کا—وہ آج 90 سال بعد بھی کھلا نہیں۔
کشمیر کو "مسئلہ” کہنے والے اسے ایک زمینی تنازع، دو ملکوں کی ضد، یا علاقائی سیاست کا فٹ بال سمجھتے ہیں۔ لیکن جو کشمیری اپنی زندگی، عزت، شناخت اور دین کی حفاظت کے لیے روز جیتا اور مرتا ہے، اس کے لیے یہ مسئلہ نہیں، زندگی کا سوال ہے۔ اور یہ سوال، اُس دن سے باقی ہے جب بائیس جنازے اٹھے، اور دروازے بند رہ گئے۔
وقت بدل گیا۔
راجہ ہری سنگھ کی آمریت ختم ہوئی، مگر نئے چہرے نئے ہتھکنڈوں کے ساتھ آئے۔
1947 کے بعد کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے ساتھ اور دوسرا بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہوئیں، استصوابِ رائے کا وعدہ کیا گیا، لیکن وہ وعدے بھی ان بند دروازوں کے ساتھ دفن ہو گئے۔
5 اگست 2019 کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تو گویا آخری قفل بھی جڑ دیا گیا۔
نہ اب وہاں کوئی پرچم بلند ہو سکتا ہے، نہ آواز۔
انٹرنیٹ بند، صحافت پر پابندی، سیاسی کارکن لاپتہ، اور ہر کشمیری ایک قیدی۔
ایک ایسا قیدی جس کے ہاتھ میں زنجیر بھی ہے، اور دنیا اس کی زنجیروں کی آواز سن کر بھی انجان بن چکی ہے۔
یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والا بھارت کشمیر میں بدترین آمریت کی مثال بن چکا ہے۔ پیلٹ گنز سے بچوں کی بینائی چھینی گئی، خواتین کو ہراساں کیا گیا، بزرگوں کی داڑھیاں نوچی گئیں، اور نوجوانوں کو بنا مقدمے کے قید کر دیا گیا۔
لیکن ان مظالم سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان سب پر دنیا خاموش ہے۔
اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں کو فراموش کر چکی ہے، مسلم دنیا مفادات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اور ہم—ہم صرف سال میں ایک دن، 5 فروری یا 13 جولائی کو، چند تقریریں، چند پوسٹر، اور کچھ اخباری مضامین کے ذریعے اپنی ذمہ داری پوری سمجھ لیتے ہیں۔
یہ بند دروازے صرف بھارت نے بند نہیں کیے،
ہم نے بھی اپنی بے حسی، کمزوری، اور وقتی جذباتی ردِعمل سے ان دروازوں پر تالا ہی ڈالا ہے۔
ہم نے کشمیریوں کو امید ضرور دی، لیکن عملی طور پر ان کے ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ نہ دکھا سکے۔
آج اگر کشمیر میں گولی چلتی ہے، تو اس کی بازگشت پاکستان کے دل میں سنائی دینی چاہیے۔
کیونکہ کشمیر کوئی علیحدہ سرزمین نہیں، یہ ہماری شہ رگ ہے۔
لیکن اگر شہ رگ میں درد ہو اور ہم اُسے محسوس نہ کریں، تو ہمیں اپنے ضمیر پر سوال اٹھانا ہوگا۔
مسئلہ کشمیر، صرف کشمیریوں کا نہیں—یہ انسانیت کا امتحان ہے۔
اور اس امتحان میں ناکامی صرف مظلوم کی شکست نہیں، ظالم کے حوصلے کی جیت بھی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف ماضی کی قربانیوں کو یاد کرنے تک محدود نہ رہیں،
بلکہ یہ طے کریں کہ ان بند دروازوں کو کھولنے کے لیے اب ہمیں کتنی ہمت، کتنی عقل، اور کتنی حکمت درکار ہے۔
کشمیر کو آزاد دیکھنے کی خواہش اگر دل میں زندہ ہے،
تو یاد رکھیں—دعاؤں کے ساتھ ساتھ فیصلوں کی بھی ضرورت ہے۔
وہ اذان تو مکمل ہو گئی تھی،
مگر جو دروازے اُس دن بند ہوئے تھے،
اب اُنہیں کھولنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔