یہ عجیب سا المیہ ہے کہ جب کراچی کی سڑکوں پر جرم، لاقانونیت، اور بے یقینی کا راج ہوتا ہے، پانی کی قلت اور کوٹہ سسٹم پر احتجاج ہوتا ہے تو کچھ لوگ بے حس نظر آتے ہیں۔ اور جب ہمارے دیہات ڈوبتے ہیں، کارونجھر پہاڑ خطرے میں ہوتا ہے یا دریائے سندھ کی سانسیں گھٹتی ہیں، تو کچھ دوسرے لوگ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔

تقریباً اٹہتر سال ساتھ رہنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک کیوں نہیں ہو پاتے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنی نہیں، سیاست دانوں کی عطا کردہ عینک سے دیکھتے ہیں۔ وہ عینک جو برسوں سے ہمیں پہنائی ہوئی ہے اور ہم اب اس عینک کو ہی اپنی آنکھیں سمجھنے لگے ہیں۔ یہ عینک ہمیں دکھاتی ہے کہ "ہمارے سب مسائل اور استحصال کی جڑ وہ ہیں!” لیکن خود سوچیے کہ اگر ایسا ہوتا تو ہم میں سے کوئی تو خوش حال ہوتا، چین کی بانسری بجاتا۔ خوش حال تو مقتدر طبقہ ہوا جاتا ہے، چین کی بانسری تو وہ بجاتا ہے۔ مگر مل کر اس کا گریبان پکڑنے کے بجائے ہم برسوں سے آپس میں دست و گریباں ہیں۔

یاد رکھیے، غریب چاہے اردو بولتا ہو یا سندھی، سب ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں۔

نہ کوٹہ سسٹم نے انصاف دیا، نہ روزگار نے برابر مواقع۔ کوٹہ سسٹم ہو یا روزگار کا بحران، کسی غریب کو اس کا حقیقی فائدہ کبھی نہیں ہوا۔ نہ کشمور کے غریب نوجوان کو، نہ ناظم آباد کے غریب طالب علم کو۔ اس حقیقت کو اب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس تقسیم سے دراصل فائدہ کسے ہو رہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اس تقسیم کا ہتھیار زبان ہے۔ حالاں کہ ایک دوسرے کی زبان سیکھنے سے اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت مر نہیں جاتی۔ ہم دوسرے ملکوں جا کر تو فوراً ان کی زبان سیکھ لیتے ہیں اور منہ ٹیڑھا کر کر کے درست زبان بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اس وقت نہ سندھی زبان و ثقافت کو کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ اردو زبان و ثقافت کو۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تقسیم کی سازش کو سمجھیے، ایک دوسرے کی زبان کو دشمن نہ مانیے۔ ایک دوسرے کی زبان سیکھیے تاکہ ایک دوسرے سے مکالمہ کر سکیں، ایک دوسرے کو جان سکیں اور دلوں کے بند دروازے کھل سکیں۔
ہم لوگوں کو اس سچ کو سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی زبان کی حفاظت دوسروں کو خاموش کر کے نہیں ہوتی، بلکہ مکالمے، محبت، اور ایک دوسرے کو سمجھنے سے ہوتی ہے۔
کوئی دریائے سندھ کہے یا سندھو دریا مگر زندگی سب کی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ دریا جب بہتا ہے تو نہ ذات دیکھتا ہے، نہ زبان، نہ مذہب، نہ شہر، اور نہ دیہات، بس سب کو سیراب کرتا ہے تو پھر اس کی حفاظت بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ وہ دریا جو اپنے آپ میں کوئی تعصب نہیں رکھتا اسے بچانے میں تعصب کیوں؟
یاد رکھیے سندھ دریا زبانوں کا نہیں انسانوں کا ہے اور اس کی بقا ہم سب کی بقا ہے۔

Shares: