سلیمان علیہ السلام نے ھدھد کے ذریعے ملکۂ سبا کو خط بھیجا جو پیغام رسانی کے طریقوں سے بالکل ہٹ کر تھا۔
اس کی آمد سے پہلے اسکا عظیم الشان تخت منگوا لیا۔۔۔
اسے اپنے عظیم الشان محل کی سیر کروائی جہاں وہ شیشے کے فرش کو پانی کا حوض سمجھ بیٹھی۔۔۔
مقصد کیا تھا؟
یہ بتانا کہ اگر تو ملکہ ہے اور تیرے پاس دنیاوی عیش و عشرت کا سامان ہے تو ہمیں اللہ نے اس سے کئی گنا زیادہ دے رکھا ہے۔۔۔۔ لیکن یہ زندگی کا اصل مقصد نہیں اور اصل مقصد کے آگے ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔ اصل تو توحید ہے۔ لہذٰا بہتر یہی ہے کہ جس نے یہ سب عطا کیا ہے، اسے پہچان لو اور اکیلے اس ایک ہی کی عبادت کرو۔۔۔۔
یہ دعوت کا ایک اسلوب تھا کہ ظاہری جاہ و جلال کے متوالوں کو دکھایا جائے کہ یہ چیزیں ہمارے پاس تم سے زیادہ ہیں، لیکن ہمارے نزدیک انکی کوئی اہمیت نہیں۔ اور پھر اصل اہمیت کی حامل دولت، یعنی توحید کی طرف دعوت دی جائے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک اسلوب ہے، پر واحد اسلوب نہیں۔ داعی اپنے دور کے تقاضوں اور اپنی استعداد کے مطابق حکمت کے ساتھ کوئی بھی اسلوب اختیار کر سکتا ہے جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہو کہ یہ پیغام کو زیادہ مؤثر طریقے سے سامعین تک پہنچا دے گا۔
اصحاب الاخدود والے واقعے میں اس لڑکے نے ظالم اور مشرک بادشاہ پر واضح کر دیا کہ وہ اسے نہیں مار سکتا۔ ہاں اگر اللہ کا نام لے کر تیر چلائے تو کامیاب ہو جائے گا۔ اور یوں اس نے حق کا پیغام ایسے پہنچایا کہ پوری قوم مسلمان ہو گئی۔۔۔۔ اور ایسا ایمان لائی کہ آگ کی خندقوں میں چھلانگ لگا دی پر ایمان سے دستبردار ہونا گوارا نہ کیا۔
اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو عصا اور ید بیضاء کے معجزات خاص طور پر فرعون کو مرعوب کرنے کیلئے عطا فرمائے۔ موسی علیہ السلام نے پوری قوم کے سامنے اپنے معجزے کے اظہار کا مطالبہ کیا تاکہ (اللہ کی عطا کردہ) اپنی اس طاقت سے پوری قوم کو متاثر کریں۔ جادو گروں پر ثابت کیا کہ میرے پاس تم سے بڑی طاقت ہے، پر یہ اصل چیز نہیں۔۔۔۔ اصل تو وہ ذات ہے جس نے یہ عطا کی اور اسکا پیغام ہے جو میں لایا ہوں۔۔۔ اور ہم نے دیکھا کہ جادوگر ایسے متاثر ہوئے کہ مصلوب ہونا قبول کر لیا پر ایمان کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔۔۔
ہمارے سطحی سوچ والے اس دور میں ہوتے تو کہتے کہ سلیمان علیہ السلام، موسی علیہ السلام اور وہ مومن و موحد لڑکا محض شو مار رہے ہیں۔۔۔۔ (نعوذباللہ)….
اگر کوئی یہ بتا رہا ہے کہ میرے پاس تم سے بہتر بائیک ہے اور تم سے بہتر سٹائل ہے، لیکن یہ اصل نہیں۔ اصل وہ ہے جو میں تمہیں بتانے آیا ہوں۔۔۔۔
لیکن:
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں
غیروں نے آ کے پھر بھی اسے تھام لیا ہے ۔۔۔!!!
یہ وہ لوگ ہیں جو دعوت کے مزاج کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ آجکل کے نوجوان کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے متاثر کرنا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان دن بدن مولوی سے متنفر ہوتا جا رہا ہے۔
میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہر کوئی، ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہی طریقہ اختیار کرے۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ آپ جس طریقے کو مؤثر سمجھتے ہیں اور جس میں مہارت سے ابلاغ کر سکتے ہیں، اسے اختیار کریں۔۔۔۔ لیکن خدارا، پورے سیناریو کو سمجھے بغیر بلاوجہ کی تنقید سے باز آ جائیں۔ اس سے آپ جدید ذہن کو مزید اپنے سے دور ہی کریں گے اور یہ دین کی کوئی خدمت نہیں۔۔۔!!!








