کرام (خیبر پختونخوا) میں 4 جنوری کو ڈی سی کرم سمیت 7 افراد پر حملے میں ملوث دو مبینہ شرپسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے اور انہیں تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
4 جنوری کو لوئر کرم کے علاقے بگن میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کر کے ڈی سی کرم سمیت 7 افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ زخمی ہونے والوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے، جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔اس حملے کے بعد، کوہاٹ میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 4 جنوری کے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنے والے افراد کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جائیں گے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فرقہ ورانہ انتشار کی حمایت کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ اگر کسی بھی فریق کی جانب سے مجرموں کی حوالگی میں عدم تعاون کیا گیا تو اس کے خلاف کلیئرنس آپریشن کیا جائے گا۔ اس دوران، مقامی آبادی کو عارضی طور پر دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے تاکہ کارروائی کے دوران شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔خیبر پختونخوا حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مختلف خوارج (دہشت گرد) کے سر کی قیمت بھی مقرر کی جائے گی تاکہ ان کے خلاف مزید کارروائیاں کی جا سکیں۔ یہ اقدام علاقے میں قانون کی بالادستی اور امن قائم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
دوسری جانب، 4 جنوری کے حملے کے بعد کرم کے علاقے میں ایک قافلہ جو تین ماہ بعد علاقے میں کھانے پینے کا سامان لے کر آ رہا تھا، اسے روک دیا گیا۔ اس قافلے میں شامل افراد اور سامان کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں تاکہ علاقے کے عوام کو درپیش مشکلات کا حل نکالا جا سکے۔حکومت نے اس واقعے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
190 ملین پاؤنڈ کیس، فیصلے کی نئی تاریخ مل گئی
پاک فوج اور فرنٹیئر کور نارتھ، وادی تیراہ میں امن کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں