ٹھیک 21 برس پہلے کی بات ہے، فروری 1999ء میں پاک بھارت کرکٹ سیریز کا ٹیسٹ میچ فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ دہلی میں کھیلا جا رہا تھا۔ جہاں کرکٹ کی تاریخ کا منفرد واقعہ پیش آیا جب ہندوستانی لیگ اسپنر باؤلر انیل کمبلے تن تنہا ایک ہی اننگز میں دس وکٹ لے اڑے اور اکیلے ہی ساری پاکستانی اننگز کی بساط لپیٹ دی۔ دراصل اس میچ میں ‘جے پرکاش’ نامی ہندوستانی ایمپائر نہ جانے کیا ٹھان کر آیا تھا کہ بس کب ‘گیند’ کسی بیٹسمین کے ‘پیڈ’ پر لگے اور ‘انیل کمبلے’ آؤٹ کی درخواست کرے۔ آوٹ دینے کو وہ ایمپائر پہلے سے ہی تیار کھڑا ہوتا۔ محض پاکستان دشمنی اور ایمپائر کے بغض بھرے فیصلوں سے یہ ٹیسٹ میچ کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک مثال کے طور پر محفوظ ہو گیا۔
لیکن اس وقت کے کھیل میں تھرڈ ایمپائر اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں تھا لہذا گراؤنڈ کے بیچ کھڑا فرد واحد ہی تمام اختیارات کا مالک ہوتا تھا خواہ وہ کسی بھی کھلاڑی یا ٹیم کو اپنی پسند یا نا پسند کی بھینٹ چڑھا دے۔ اب دو دہائیوں بعد سب کچھ بدل چکا ہے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عام اور کھلاڑی کو اپیل کا حق حاصل ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں، 1999ء میں ہی نواز حکومت نے حاضر سروس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ سری لنکا کے آفیش ٹور سے واپسی پر پاکستان میں نہ اتارنے کے احکامات جاری کیے طیارہ تو پاکستان لینڈ کر گیا البتہ اس سازش میں ملوث موصوف وزیراعظم کو نہ صرف حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ طیارہ اغواء کیس میں سزائے موت کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی جو بعد از کچھ دوست ممالک کی مداخلت کے ایک معاہدے کے تحت جدہ پدھار گئے اور جنرل مشرف اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوئے۔
2007ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے نتیجہ میں ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو اسی فیصلہ سے وکلاء تحریک کی چنگاری سلگی جس نے بالآخر مشرف عہد کا خاتمہ کر دیا۔ اور انتخابات سے قبل بینظیر کے قتل سے پیپلزپارٹی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا۔ نواز زرداری کی نورا کشتی میں ہی زرداری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر باری کے انتظار میں نواز شریف تیار بیٹھے تھے۔ ملکی تاریخ میں تیسری بار اقتدار حاصل کرنے کے بعد انتقام کی آگ میں لپٹے نواز شریف نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر آئین معطل کرنے کی پاداش میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کر دیا۔ محبان وطن اس وقت سکتے میں آۓ جب عدلیہ میں پہلے سے تیار بیٹھے ایمپائر نما جج صرف درخواست کے منتظر پاۓ گئے،
وہی بغض و عناد بھرا رویہ۔ بیرون ملک بستر مرگ پر پڑے مشرف کو پاکستان میں آ کر عدالت کے روبرو بیان ریکارڈ کروانے پر اصرار رہا۔ بیماری میں مبتلا مشرف بار بار جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ویڈیو بیان ریکارڈ کروانے کی اپیل کرتے رہے لیکن عدلیہ میں بیٹھے ‘جے پرکاش’ اس حق کو استعمال کرنے کی اجازت دینے سے گریزاں رہے۔ چند ہفتے پہلے عدالتی دنیا کی تاریخ کا سیاہ کارنامہ اس وقت انجام دیا جب ملکی دفاع کے لیے تین جنگیں لڑنے والے کمانڈو کو غدار قرار دیتے ہوئے پھانسی کا حکم صادر فرمایا۔ عداوت کی انتہا کہ حکم نامے میں لکھا گیا اگر سزا سے قبل مجرم کی موت واقع ہو جائے تو لاش کو تین روز تک ڈی چوک میں پھانسی پر لٹکا کر رکھا جائے۔ اس جنرل نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس ملک کی خدمت میں گزارے دوران جنگ بطور چیف آف آرمی اسٹاف دشمن کی سرزمین پر اپنے جوانوں کے ساتھ رات گزارنے پر دشمن بھی ان کی بہادری پر داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیس میں جس خصوصی عدالت نے 1999ء پاک بھارت کرکٹ ٹیسٹ میچ کی تاریخ دہرائی آج لاہور ہائی کورٹ نے اس عدالت کو ہی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ دیر آید درست آید کے مترادف انصاف کی امید تو پیدا ہوئی البتہ بدقسمتی سے وطن عزیز میں ‘جے پرکاش’ ہر جگہ موجود ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے اب وقت بدل چکا ہے۔ سوشل میڈیا سے ملکی اسکرین پر عوام کی گہری نگاہ ہے، اپیل کا حق اور جدید ٹیکنالوجی کے سہارے، اب کے ‘جے پرکاش’ کا فیصلہ حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تھرڈ ایمپائر ضرور دیکھے گا اگر باؤلر کا پاؤں کریز سے باہر ہوا تو قانونی طور پر نو بال قرار دی جائے گی جس کے ساتھ ناٹ آؤٹ کی اسکرین روشن ہو گی اور ہاں جدید کرکٹ میں فری ہٹ کا آپشن بھی موجود ہے۔۔۔!!!!!!
اور تھرڈ ایمپائر نے نو بال کہ کر ناٹ آؤٹ قرار دے دیا
#صدائے_اسد
#اسدعباس خان








