ڈگری کو چھوڑنے کی بات!!! — ضیغم قدیر

بل گیٹس نے یونیورسٹی چھوڑی، مارک زکر برگ نے یونیورسٹی چھوڑی، سٹیو جابز نے چھوڑی وغیرہ وغیرہ

یہ جملہ آئے روز سننے کو ملتا ہے مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ انہوں نے یونیورسٹی چھوڑی تو تب انکی پوزیشن کیا تھی اور ان کو سپورٹ کرنیوالا کون تھا؟

جس وقت ان سب نے یونیورسٹیوں کو چھوڑا اس وقت یہ اپنی کمپنیاں بنا چکے تھے اور وہ کمپنیاں اتنی زیادہ آؤٹ ریچ پر پہنچ چکی تھی کہ ان کے لئے یونیورسٹی اور کمپنی دونوں ایک ساتھ چلانا مشکل ہوگیا تھا۔ سو انہوں نے ڈگری پہ کاروبار کو ترجیح دی۔ اور کمپنیز کو مزید ترقی دینے پر لگ گئے۔

لیکن یہاں فائنل سٹیپ بتا کر پہلے سٹیپ نہیں بتائے جاتے۔

کیوں؟

کیونکہ پہلے سٹیپ محنت طلب ہیں، جبکہ فائنل سٹیپ سب سے زیادہ آسان اور دل کو لبھانے والا ہے اور انسانی نفسیات ہے کہ وہ آسان باتیں سننا پسند کرتا ہے اور محنت طلب باتوں اور کاموں سے بھاگتا ہے۔

آسان بات یہ ہے کہ تمام ارب پتی یونیورسٹیوں سے ڈراپ آؤٹ ہوئے تو ارب پتی بنے۔

مشکل بات یہ ہے کہ یہ سب ارب پتی امریکہ میں رہ رہے تھے، وہاں پر انہیں اچھی سکول ایجوکیشن ملی، بعد میں کالج میں انکی پروفیشنل ڈیولپمنٹ پہ کام ہوا، کالج کے دوران ان کا واسطہ اس ٹیکنالوجی سے ہوا جو غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے آپ اور ہم نے پانچ دس سال بعد دیکھنی تھی اور پھر اس ٹیکنالوجی کو پروفیشنلی پراڈکٹ میں بدلنے کے لئے ان کے پاس ملکی وسائل تھے جس میں آسان قرضے سے لیکر والدین کے پیسے تک سب موجود تھا۔ ان پر کسی قسم کا سوشل پریشر نہیں تھا کہ آپ کی کمپنی فلاں کے مذہب، عقیدے وغیرہ کو ٹھیس پہنچائے گی نا ان سے کسی نے یہ پوچھا کہ آپ سلفی ہیں یا مقلد ہیں یا قادیانی، نا ہی ان کو آپ کے والے مسائل تھے کہ بائیس پچیس سال کی عمر تک آپ کی سیکس لائف مکمل ہوئی کہ نہیں، سب کی گرل فرینڈز تھی سو وہ نفسیاتی طور پر آزاد رہ کر کسی بھی آئیڈیا پہ کام کر رہے تھے اور ان کا معاشرہ اور ملک سپورٹ کر رہا تھا۔

پھر جا کر انکی کمپنیاں جب ملین ڈالر سے زائد کے کیپیٹل پر پہنچی تو انہوں نے کالج سے ڈراپ آؤٹ ہونا پسند کیا۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتے ہیں۔۔۔کہ

کیا آپ کے ملک میں آپ کے پاس نئے آئیڈیاز سوچنے کے لئے وسائل دستیاب ہیں؟ کیا آپ زندگی کے بنیادی سروائیول کی پسوڑیوں مطلب شادی یا سادہ الفاظ میں سیکس لائف کی پسوڑی سے نکل چکے ہیں؟ کیا آپ کا ملک آپ کو آپکی کمپنی کے لئے خام مال باآسانی دے سکتا ہے؟ کیا آپ کے ملک میں ٹیکنالوجی اس لیول پہ ہے جس پر ایک ہارورڈ کا طالب علم دیکھ رہا ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی کمپنی میں لوکل انویسٹر شئیر خریدیں گے؟ اور کیا آپکے ملک میں لانگ ٹرم پہ بزنس پالیسی موجود ہے؟

ان سب سوالوں کا جواب نا میں ہوتا ہے۔

سو پھر ڈگری کو برا کیوں کہا جائے؟ پھر سیدھا نقطہ یہ ہے کہ آپ سماج کو بدلیں یا اسے چھوڑ دیں پھر جا کر آپ کچھ نیا بنا سکیں گے۔

اس وقت ہمارا ملک ایک کنزیومر ملک ہے جہاں پر پروڈیوسر بننے کی سوچ کے پیچھے ہزاروں چیلنجز ہوتے ہیں۔ آئیڈیاز ہیں تو وسائل نہیں وسائل ہیں تو آئیڈیاز نہیں اگر دونوں ہیں تو ملکی پالیسیز نہیں ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا سٹارٹ اپ میرے خیال سے دراز ہے اور پھر ائیر لفٹ تھی، دراز کے سی او نے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں غیر یقینی کی صورتحال دیکھ کر بہت سے آپریشن محدود کریں گے، جبکہ ائیر لفٹ تو مکمل بند کر دی گئی۔ ائیر لفٹ کیساتھ ساتھ کریم اور دیگر ہزاروں چھوٹے سٹارٹ اپس بند ہو گئے۔

اب یہاں سٹارٹ اپس کے بند ہونے کی وجہ FDI یا فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا بند ہونا ہے۔ کیونکہ ہمارا لوکل انویسٹر تو دھیلا خرچنا نہیں چاہتا۔ آپ ایک آئیڈیا لائیں اس پر کمپنی بنائیں، لوکل مارکیٹ میں سے کوئی بھی انویسٹ نہیں کرے گا سارا زر باہر سے لانا پڑے گا۔

وہیں ایک ہاؤسنگ سکیم بنائیں دھڑا دھڑ پلاٹ بکیں گے، انویسٹمنٹ آئے گی پیسہ آئے۔

مطلب مارکیٹ کی ڈائنامکس ہی کنزیومر بیسڈ ہے پروڈیوسر کو کوئی یہاں پنپتا نہیں دیکھ سکتا۔

ایسے میں حل یہی ہے باہر جائیں ڈھیر سا پیسہ کما کر یا تو وہاں ہی کمپنی لانچ کریں یا یہاں آ کر لانچ کریں اور پراڈکٹس باہر ایکسپورٹ کریں۔

مگر باہر جانے کے لئے آپ کو پراپر یونیورسٹی ایجوکیشن چاہیے، اچھا جی پی اے اور سکالرشپ سو اس کے لئے ڈگری پر محنت کریں، 3.4 سے اوپر جی پی اے رکھیں، پرسنل گرومنگ سیکھیں، خود کو پریزنٹ کرنا سیکھیں اور یہاں سے نکلنے کی کوشش کریں۔ ڈگری کو چھوڑنے کی بات کرنے والے ڈفر خود ایک پرزہ تک نہیں بنا سکتے سو ان کا چورن مت خریدیں۔

Comments are closed.