وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ حکومت نے انتہاپسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ اور مشترکہ آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔ انتہاپسندی کو شکست اور امن کو فروغ دینے کیلیے سماجی رابطہ کاری کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بات نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس 25 کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ 240 شرکا میں پاک فوج کے افسران سول سرونٹس اور 24 دوست ممالک کے فوجی افسران شریک تھے۔ شرکا کی قیادت چیف انسٹرکٹر میجر جنرل محمد اختر کر رہے تھے۔ صوبائی وزرا شرجیل میمن، سردار شاہ، ناصر حسین شاہ، سعید غنی، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ ، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، سیکریٹری وزیراعلیٰ رحیم شیخ اور دیگر صوبائی سیکریٹریز نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت نے پولیس فورس کو مضبوط کرنے کیلیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں تربیتی پروگرام اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ کو اپ گریڈ کرنے کے علاوہ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ بھی شروع کیا ہے۔ مزید برا?ں ایس فور پروجیکٹ کے ذریعے سندھ بھر کے چالیس ٹول پلازہ پر چہرے اور نمبر پلیٹ کی خودکار شناخت کا نظام نصب کیا گیا ہے۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ انویسٹی گیشن کے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تھانوں کیلیے چار ارب اسی کروڑ روپے کا براہ راست بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کیلیے چار ارب نوے کروڑ اور دس لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ شہدا پیکج بھی 10 ملین سے بڑھا کر 23 ملین روپے کردیا گیا ہے۔ شہید اہلکار کی ریٹائرمنٹ کی عمر تک لواحقین کیلیے تنخواہ کا اجرا اور خاندان کے دو افراد کو نوکری بھی دی جائے گی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کچے کے علاقے میں چیلنجز سے نمٹنے کیلیے بھی کوشاں ہے۔ افرا اسٹرکچر اور سماجی خدمات کو بہتر کیا جا رہا ہے۔ پولیس کو ڈرون، اے پی سیز اور 7۔12 بور بندوقیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ نقل و حمل کو بہتر بنانے کیلیے سڑکیں اور پل بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ صوبے کے مالی حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بتایا کہ 25-2024 کا بجٹ 3 کھرب، پانچ ارب اور ساٹھ کروڑ روپے کا ہے جس میں نقد محاصل 1912 ارب روپے ہیں۔
959 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوں گے جبکہ 184ارب اور اسی کروڑ روپے سرمایہ کاری پر خرچ ہوں گے۔ مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبے کے محاصل 2 کھرب، 56ارب اور 20 کروڑ روپے ہوں گے۔ 1900ارب اور اسی کروڑ روپے وفاقی منتقلی اور 661ارب اور 90 کروڑ روپے صوبائی وسائل سے حاصل ہوں گے تاہم حکومت کو رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ایف بی ا?ر سے 139 ارب روپے کم موصول ہوئے ہیں جبکہ صوبائی محاصل میں بھی 35ارب اور 90 کروڑ روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔
حکومتی اخراجات 300 ارب ، نوے کروڑ روپے ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کو 28ارب، نوے کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مالیاتی نظم و ضبط پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن کے ساتھ ضروری ماہانہ اخراجات 143 ارب روپے ہیں۔ حکومت بیرونی امدادی منصوبوں میں انفرا اسٹرکچر، سماجی تحفظ اور سماجی خدمات کو ترجیح دے رہی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب میں 70 فیصد صوبہ متاثر ہوا۔ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد بیگھر اور بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ حکومت سندھ نے ہنگامی اقدامات کا آغاز کیا اور 20 ارب ڈالر نقصانات کا تخمینہ لگایا۔ جینیوا میں پاکستان موسمیاتی کانفرنس میں 11 ارب 60 کروڑ ڈالر کا بحالی منصوبہ پیش کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق رواں مالی سال کے 959 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں انفرا اسٹرکچر، تعلیم، صحت اور زراعت کی بہتری پر توجہ دی جا رہی ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام میں پیش رفت جاری ہے۔ سندھ کے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یونٹ کو ایشیا کا چھٹا بہترین یونٹ قرار دیا گیا ہے۔ سیلاب متاثرین کیلیے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ جاری ہے۔ شمسی توانائی کے منصوبے سے 3 لاکھ 60 ہزار افراد مستفیذ ہو رہے ہیں۔ حکومت سندھ بحالی اور طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں کیلیے پرعزم ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ نے مقامی اداروں کا 23-2022 کے 82 ارب روپے کے مقابلے میں بجٹ بڑھا کر 267 ارب روپے کردیا ہے اور خصوصی پروگرام کے تحت ان کی صلاحیتوں میں ضافے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مراد علی شاہ نے نشاندہی کی کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس نے مقامی انتخابات کرائے اور اختیارات منتخب اداروں کو منتقل کیے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ سسٹم میں پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ کو پانی کے بحران کا سامنا ہوگا اور زراعت تباہ ہوجائیگی۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ میں ہندووں سے متعلق ایک سوال سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ہندو پرامن طور پر مقیم ہیں۔ انہوں نے ہندو مسلم بھائی چارے کا ذکر کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ عام انتخابات کے دوران سندھ میں ایک رکن قومی اسمبلی اور دو رکن صوبائی اسمبلی ہندو منتخب ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات: اسلام کی تبلیغ اور اتحاد پر زور
سندھ میں خالی بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخابات 14نومبر ہوں گے