تمام قومی اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق سیاسی اور عسکری قیادت کی کوششوں سے پاکستان معاشی مسائل سے نکل کر کامیابی کے راستے پر گامزن ہو رہا ہے۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری وفود کی آمد سے جہاں محبان وطن خوش ہیں تو وہیں پاکستان کے دشمنوں کی نیندیں حرام ہیں۔ پاکستان میں امن و امان اور معاشی استحکام کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے دہشت گرد عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی نئی لہر کے ذریعے ملک میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔بلوچستان اربوں ڈالر کے ’’سی پیک‘‘ کا اہم ترین روٹ ہے۔ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا افتتاح اور گوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر پاکستان کو جس مقام پر لے جائیں گے وہ بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کو قبول نہیں اس لئے انہوں نے بلوچستان کو اپنا مرکزی ہدف بنا رکھا ہے۔ دہشت گردی نے نہ صرف ہمیں اندرونی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے بلکہ بیرونی دنیا میں ہماری ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ معاشی ترقی کے پہیے کو رواں رکھنے کے لئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ ہمیں دہشتگردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ہو گا، کیونکہ سہولت کاری اور اندرونی مدد کے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن نہیں۔ جاننا ہوگا کہ دہشت گرد بن جانے والے ہم وطنوں کو اپنے ہی ملک میں اپنی جانیں دائو پر لگا کر دہشت گردی پر آمادہ کرنے کے اسباب کیا ہیں، یہ لوگ بیرونی طاقتوں کے آلہ کار کیوں بن جاتے ہیں؟
اے ڈی سی آر قبضہ گروپ اور رسہ گیروں کے ساتھ سرکاری و نیم سرکاری زمینوں پر قبضے کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پولیس اشرافیہ اور بدماشیہ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے سے باز نہیں آرہی۔ طاقتور افراد کی زور زبردستی اور لاقانونیت کے خلاف مظلوم اور کمزور افراد ملک دشمن دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ کر مزاحمت اور ردعمل کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ دشمن اس عمل میں شامل ہو جائے تو یہ رد ِعمل دہشت گردی کی شکل بھی اختیار لیتا ہے۔
فرقہ واریت کی نفرت امن و امان کی قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ اور دہشت گردی کی جڑ ہے۔ ایک ہی حل ہے کہ جو بھی کسی مذہب اور فرقے کی توہین کرے، اشتعال انگیز گفتگو کرے اسے قانون کے کٹہرے میں لاتے ہوئے نشان عبرت بنا دیں۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف آپریشن مکمل خاتمے تک جاری رہنا چاہئے کیونکہ یہی دہشت گردی استحکام پاکستان اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کرنے والے طالبان اور علیحدگی پسند تنظیموں کو بھارت اور افغانستان کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔دہشت گردی کی وجہ سے ہماری معیشت شدید دبائو کا شکار ہے۔ دہشت گردی اور عدم تحفظ کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کا عمل مفلوج ہو چکا ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان کیا، ان میں سیکورٹی فورسز اور بے گناہ شہری دونوں شامل ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اقتصادی نقصانات کا تخمینہ 200ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ پاک فوج نے لا زوال قربانیوں کی داستان رقم کرکے ملک میں جو امن قائم کیا تھا کچھ اندرونی وبیرونی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر اس کو سبوتاز کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے پاکستان مخالف قوتیں شرپسندی کو ہوا دے کر ملک کو کھوکھلا کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے فوجی آپریشن مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک دہشت گردی کے اسباب کو سمجھ کر سویلین حکومت اور ادارے اس کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حل کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کریں گے، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لازوال قربانیاں قابل ستائش ہیں اور ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ان محسنوں کی قربانیوں اور لہو کو رائیگاں نہ جانے دیا جائے۔ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ پولیس اور سول انتظامی افسران دہشت گردی کے خاتمے میں کردار ادا کرنے کی بجائے دہشت گردوں کی سہولت کاری والا کام کر رہے ہیں۔ ایجنسیز اور وزارت داخلہ کی طرف سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود بنا نمبر پلیٹ، مبہم اور غیر نمونہ نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔ پولیس اور سرکاری ملازمین بنا نمبر پلیٹ گاڑیوں میں سفر کرکے دہشت گردوں کو بنا شناخت کھلے عام آزادی سے امن و امان سبوتاژ کرنے کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ بنا نمبر پلیٹ ،مہبم اور غیرنمونہ نمبر پلیٹ والی تمام سرکاری اور غیرسرکاری گاڑیوں کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر کرکے ان تمام افسران و افراد کو پابند سلاسل کیا جائے ۔کیونکہ ان افسران کی دیکھا دیکھا دہشت گردبھی بنا نمبر پلیٹ اور راڈ لگا کر چھپائی گئی گاڑیوں میں سفر کرکے آسانی سے اپنے اہداف پورے کررہے ہیں۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان کو بیرونی سرمایہ کاری اور استحکام پاکستان عزیز ہے یا کرپٹ سرکاری ملازمین کا تحفظ۔
لاہور ٹریفک پولیس کی نااہلی کی وجہ سے لاہور بنا نمبرپلیٹ گاڑیوں میں سرفہرست ہے جہاں قانون کی رٹ نظر نہیں آ رہی۔ ٹریفک پولیس کی کرپشن کی قیمت معصوم پاکستانیوں کی جان و مال کی قربانیوں کی صورت ادا کرنا پڑتی ہے۔ حکومت کی رٹ بحال نہ کروانے والے سرکاری افسران کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے ۔








