دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کی قربانیاں اور حکومتی ناکامیاں

ispr

پاکستان فوج دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑ رہی ہے، جہاں فتنہ الخوارج اور بلوچ دہشت گردوں جیسے خطرات پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں، وہیں حکومتی ناکامیاں اس مشن میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے بہادر سپاہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، لیکن بدعنوانیوں، اسمگلنگ اور منشیات کی غیر قانونی تجارت جیسے مسائل نے دہشت گردی کے خلاف پیش رفت کو کمزور کر دیا ہے۔ تحریک طالبان اور بیرونی دشمن عناصر کی پشت پناہی ان دہشت گردوں کے حوصلے بڑھا رہی ہے۔

دوسری طرف، سیاسی میدان میں انتشار نے قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بار بار احتجاجی کالز اور 24 نومبر کی احتجاجی مہم سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر بحث کا موضوع بن گئی ہیں، جبکہ فوج اپنے 60 سے زائد جوانوں کی قربانی دے چکی ہے جو کہ ایک مختصر مدت میں ایک بڑا نقصان ہے۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی فریضہ ہے۔ حکومتی کمزوریوں کو دور کرنا، اداروں کو متحد کرنا، اور اس فتنے کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان موجودہ چیلنجز کے پیش نظر مزید تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنی صفوں کو مضبوط کرتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔

عدلیہ کی توجہ سیاسی مقدمات پر،دہشتگردوں کو سزائیں کون دے گا؟
پاکستان میں گورننس کی صورت حال اس وقت ایک سنگین بحران کا شکار ہے۔ عدلیہ کی موجودہ فعالیت پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جہاں ایک سیاسی جماعت کے کیسز نمٹانے میں زیادہ وقت صرف کیا جا رہا ہے، جب کہ ملک میں دیگر اہم مسائل، خصوصاً دہشت گردی اور سیکیورٹی کی صورتحال پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے، مگر جب قومی سلامتی اور امن و امان کا مسئلہ درپیش ہو، تو عدلیہ کو صرف سیاست کے کیسز تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔

دہشت گردی کے خاتمے کا حل تیز تر انصاف، فوجی عدالتیں
دوسری جانب، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ دس دنوں میں تقریباً 60 جوانوں کی شہادت نے نہ صرف ان خاندانوں کی زندگیوں کو تباہ کیا ہے بلکہ یہ ایک علامت بن چکی ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہیں۔ 60 لاشیں اور 60 برباد خاندان ایک سنگین حقیقت ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر کس قدر شدت اختیار کر چکی ہے۔ ان تمام معاملات میں فوج تنہا ہے۔ فوج کے جوان اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں، لیکن ان کے سامنے اس وقت ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ ملک میں فوجی عدالتیں نہیں ہیں، جو دہشت گردوں کو تیزی سے سزا دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے دہشت گردوں کی جرات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ عدلیہ ان معاملات میں فیصلہ کرنے سے ڈرتی ہے۔ جب تک عدلیہ اور حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، دہشت گردی کی لہر میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔

یہ صورتحال ایک چیلنج ہے جس کا حل صرف عدلیہ یا پولیس کے ذریعے نہیں نکالا جا سکتا۔ حکومت، عدلیہ، اور سیکیورٹی اداروں کو مل کر اس بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم گورننس کی بہتری، عدلیہ کے کردار اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی پر توجہ نہ دیں تو یہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے، اور ملک کے استحکام کے لئے یہ سنگین خطرہ بن سکتے ہیں

دہشتگردی کی نئی لہر،ذمہ دار کون؟فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت

ضمانت تو مل گئی پر عمران کی رہائی کا دور دور تک امکان نہیں

عمران خان کی ضمانت،ریلیف عارضی،توشہ خانہ میں سزا کا امکان

پی ٹی آئی احتجاج، بشریٰ بی بی پر اراکین کا عدم اعتماد

بشریٰ بی بی کی ویڈیو”لیک”ہونے کا خطرہ

24 نومبر کےجلسے کی حتمی کامیابی کیلئے خواجہ آصف کا عمران خان اور بشریٰ کو مشورہ

24 نومبر احتجاج:بشریٰ بی بی کی تمام اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ 5 ہزار افراد لے کر آنے کی ہدایت

بشریٰ بی بی کا "جادو” نہ چل سکا، پشاور میں پی ٹی آئی رہنما عہدے سےمستعفی

نوجوانوں سے بڑی توقعات ہیں، بشریٰ بی بی پارٹی میں متحرک

بشریٰ اور علیمہ میں پھر پارٹی پر قبضے کی جنگ،پارٹی رہنما پریشان

Comments are closed.