وطن عزیز ایک بار پھر لہو میں نہا گیا ۔ اسلام آباد کی عدالت کے باہر ہونے والا خودکش دھماکہ جس میں درجن سے زائد قیمتی جانیں اور زخمی ہونے والوں شہریوں اور جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کالج پر دہشت گردوں کا حملہ اس تلخ حقیقت کی تصدیق ہے کہ دہشت گردی کا جن ابھی پوری طرح بوتل میں بند نہیں ہو سکا۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں کبھی آپریشن راہ نجا ت، ضرب عضب اور ردالفساد کے نعرے گونجتے تھے۔جہاں قوم نے قربانیاں دیں ،پاک فوج جملہ اداروں پولیس نے قربانیاں دیں اور جہاں یہ اُمید بندھی تھی کہ اب امن مستقل ٹھکانہ بنے گا۔ مگر حالیہ حملے یہ بتا رہے ہیں کہ دہشت گردی کی جڑیں صرف پہاڑوں یا سرحدی علاقوں میں نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں کہیں نہ کہیںدوبارہ پنپ رہی ہیں۔ اسلام آباد جیسے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں خودکش دھماکہ ایک علامتی پیغام ہے۔دوسری جانب وانا میں کیڈٹ کالج پر حملہ اس بات کا عندیہ ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک دوبارہ منظم ہو رہے ہیں ۔یہ صورت حال اس سوال کو جنم دیتی ہے آخر ریاست کی انسداد دہشت گردی حکمت عملی میں کہاں خلاء باقی ہے ؟ کیا سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے خلاف قومی یکجہتی کو کمزور کردیا ہے ؟ بلاشبہ ان حملوں کی جڑیں بھارت اور افغانستان کی سرزمین پر موجود گروپوں سے جڑی ہیں۔ اگرسرحد پار عناصر سرگرم ہیں تودیکھنا ہوگا اندرون ملک ان کے سہولت کار کون ہیں؟ دہشت گردی کو روکنے کے لیے سرحدوں پر ٹیکنالوجی، ڈرون نگرانی ، اور معلوماتی اشتراک ناگزیر ہے ۔ پسماندہ علاقوں میں روزگار، تعلیم اور انصاف کی فراہمی انتہا پسندی کا سب سے موثر توڑ ہے۔

دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی جنگ اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب سیاستدان آپس میں برسرپیکار ہوں۔ شدت پسندی کے خلاف فکری اور دینی سطح پر بیانیہ تشکیل دینا وقت کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز نے دہشت گردی کے حوالے سے بہت قربانیاں دی ہیں۔ فوجی جوانوں سے لے کر معصوم بچوں تک ہر طبقہ نشانہ بنا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم نے ہر بار اٹھ کھڑا ہونا سیکھا ہے۔ آج بھی اگر سیاسی ،عسکری اور سماجی قوتیں ایک صف میں کھڑی ہو جائیں تو دہشت گردی کے خلاف اس اندھیرے کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں قوم اپنی سوچ بدلنے پر آمادہ ہو تو کوئی اندھیرا زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔

Shares: