دہشتگردی کی نئی لہر،ذمہ دار کون؟فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت
پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر کا شکار ہو رہا ہے، جہاں دہشت گردی کے خاتمے کا بھاری بوجھ پاک فوج کے کندھوں پر ہے، جو اپنے جوانوں کے خون سے یہ قیمت ادا کر رہی ہے۔
قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور خیبر پختونخوا (کے پی کے) میں دہشت گردوں کے خاتمے کے بعد ان علاقوں کو سول انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا، لیکن سول حکومت اس امن کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی، جو پاک فوج کی بے شمار قربانیوں کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا۔حکومت کی ناکامی، اسمگلنگ کو روکنے میں ناکامی، خوارج کی فتنہ پرور سوچ کی بحالی اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کی مسلسل کارروائیاں ملک کو سنگین چیلنجز میں دھکیل رہی ہیں۔ صرف ایک ہفتے میں 60 سے زائد فوجی شہید ہو چکے ہیں، جو صورتحال کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔کمزور انسدادِ دہشت گردی عدالتیں اور مفلوج عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں ناکام رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان دوبارہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔ فوجی عدالتوں کی بحالی نہایت ضروری ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ جب ملک میں 4.5 لاکھ سے زائد مقدمات عام عدالتوں میں زیر التوا ہیں، تو فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردوں کو فوری سزا دینا ہی امن کی بحالی کا مؤثر ذریعہ ہے۔پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تقاضا ہے کہ بروقت اور مضبوط انصاف کو یقینی بنایا جائے تاکہ وطن عزیز ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکے۔
ضمانت تو مل گئی پر عمران کی رہائی کا دور دور تک امکان نہیں
عمران خان کی ضمانت،ریلیف عارضی،توشہ خانہ میں سزا کا امکان
پی ٹی آئی احتجاج، بشریٰ بی بی پر اراکین کا عدم اعتماد
بشریٰ بی بی کی ویڈیو”لیک”ہونے کا خطرہ
24 نومبر کےجلسے کی حتمی کامیابی کیلئے خواجہ آصف کا عمران خان اور بشریٰ کو مشورہ
24 نومبر احتجاج:بشریٰ بی بی کی تمام اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ 5 ہزار افراد لے کر آنے کی ہدایت
بشریٰ بی بی کا "جادو” نہ چل سکا، پشاور میں پی ٹی آئی رہنما عہدے سےمستعفی
نوجوانوں سے بڑی توقعات ہیں، بشریٰ بی بی پارٹی میں متحرک
بشریٰ اور علیمہ میں پھر پارٹی پر قبضے کی جنگ،پارٹی رہنما پریشان
پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے گورننس میں متعدد خامیاں موجود ہیں جو صورتحال کو پیچیدہ بناتی ہیں۔ حکومتی اداروں کے درمیان مؤثر رابطے کی کمی اور پالیسیوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں وسائل کی کمی اور غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پانے میں ناکامی نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بیرونی عناصر کی مداخلت اور وسائل کی غیر مؤثر تقسیم نے ریاستی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں اور عوام کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے۔ اس کے لیے ایک منظم اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ امن و استحکام حاصل کیا جا سکے