دہلی کے لال قلعے کے قریب ہونے والے حالیہ دھماکے کے بارے میں ایک بیلسٹک ماہر کی ابتدائی تکنیکی رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق دھماکہ کسی ہائی ایکسپلوسِو مواد کا نتیجہ نہیں بلکہ گیس سلنڈر یا ایندھن کے دھماکے سے مشابہ ہے۔
ماہر کے مطابق، جائے وقوعہ سے حاصل شواہد اور دھماکے کے اثرات "دہشت گردی کے بم دھماکے” کے عمومی مظاہر سے مطابقت نہیں رکھتے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اگر یہ ہائی ایکسپلوسِو جیسے RDX یا TNT پر مبنی دھماکہ ہوتا تو اس کے اثرات کچھ اس طرح ہوتے،
زمین پر گہرا گڑھا (crater) بنتا۔اردگرد کی عمارتیں اور گاڑیاں شدید جھٹکے سے تباہ ہوتیں۔ہر سمت میں شاک ویو (Shockwave) کے اثرات نمایاں ہوتے۔دھاتوں پر مائیکرو سوراخ اور ٹکڑوں کے نشانات پائے جاتے۔ماہر کا کہنا ہے کہ دہلی دھماکے کی جگہ پر ان میں سے کوئی علامت نہیں ملی۔ زمین محفوظ ہے، کوئی گڑھا نہیں بنا، اور نقصان زیادہ تر آگ اور حرارت سے ہوا ہے۔
جائے وقوعہ کے شواہد کیا بتاتے ہیں؟
دھماکے کے بعد شدید آگ اور دھواں اٹھا۔گاڑیوں پر جلنے کے نشانات اور شیشے ٹوٹنے کے آثار ملے۔کوئی لوہے کے ٹکڑے یا شریپنل (shrapnel) نہیں ملے جو دہشت گردی کے بموں میں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں۔دھماکے کا دائرہ محدود اور سمتی (directional) تھا، جبکہ ہائی ایکسپلوسِو دھماکوں میں نقصان چاروں طرف یکساں ہوتا ہے۔
ماہر کے مطابق "ہائی ایکسپلوسِو دھماکے 7000 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پھٹتے ہیں، جب کہ گیس سلنڈر یا ایندھن کے دھماکے میں یہ عمل نسبتاً سست ہوتا ہے اور زیادہ تر حرارت و شعلوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ دہلی کے واقعے میں "دھماکہ نہیں بلکہ آتشزدگی نما دھماکہ (Deflagration)” ہوا ، یعنی جلنے کا عمل تیز ہوا مگر کسی قسم کی فوجی یا دہشت گردانہ نوعیت کی تباہی نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے آخر میں ماہر نے کہا "تمام فزیکل شواہد ایک ہی سمت اشارہ کرتے ہیں، یہ گیس سلنڈر یا ایندھن کے دھماکے کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی دہشت گردی کے بم کا۔ جب تک فرانزک لیبارٹری (FSL) کی رپورٹ میں RDX، PETN یا TNT کے شواہد نہ مل جائیں، اسے ‘دہشت گرد حملہ’ قرار دینا سائنسی طور پر درست نہیں۔”







