10 نومبر کی شام تقریباً سات بجے دہلی کے تاریخی لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب ایک کار میں ہونے والے زوردار دھماکے نے دارالحکومت کو لرزا دیا۔ اس واقعے میں آٹھ افراد جاں بحق اور چوبیس سے زائد زخمی ہوئے۔

دھماکے کے بعد فائر بریگیڈ، پولیس اور این ایس جی کی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، جبکہ علاقے کو فوراً سیل کر کے دہلی، اتر پردیش اور ہریانہ میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا۔سرکاری ذرائع کے مطابق دھماکہ ایک Hyundai i20 کار میں ہوا جس کی نمبر پلیٹ ہریانہ کی تھی۔ وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے واقعے کو "سنگین واقعہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام پہلوؤں دہشت گردی، حادثہ یا تکنیکی خرابی پر تحقیقات جاری ہیں۔تاہم، عینی شاہدین کے بیانات میں قابلِ ذکر تضاد سامنے آیا ہے۔ ایک مقامی شہری، جو جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچا، نے دعویٰ کیا کہ دھماکہ جس گاڑی میں ہوا وہ Maruti Suzuki تھی، نہ کہ i20۔ اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جس میں وہ گاڑی کے چھوٹے سائز اور ماڈل کی وضاحت کرتا ہے۔

گاڑی کی ملکیت پر بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا کہ کار نڈیم نامی شخص کے نام پر رجسٹرڈ تھی جو فرید آباد (ہریانہ) کا رہائشی ہے۔ بعد ازاں بعض میڈیا اداروں نے دعویٰ کیا کہ گاڑی سلمان نامی شخص کی تھی، جس نے حال ہی میں اسے فروخت کیا تھا لیکن رجسٹریشن اب تک تبدیل نہیں ہوئی تھی۔دوسری جانب، سرکاری بیانیہ میں اچانک ایک نیا نام سامنے آیا – طارق (پلوامہ، جمّوں و کشمیر) جس سے واقعے کو دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، اس دعوے کی کوئی حتمی تصدیق اب تک نہیں کی گئی۔

ابتدائی طور پر کئی عینی شاہدین نے شبہ ظاہر کیا کہ ممکن ہے یہ دھماکہ CNG سلنڈر پھٹنے سے ہوا ہو، کیونکہ جائے وقوعہ سے کسی واضح دھماکہ خیز مواد یا "آئی ای ڈی” کے آثار نہیں ملے۔ماہرین کے مطابق اگر یہ دہشت گرد حملہ ہوتا تو عام طور پر حملہ آور موقع سے فرار ہوتے، مگر اس واقعے میں گاڑی میں سوار تمام افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔

سوالات جو ابھی تک جواب طلب ہیں،گاڑی کا درست ماڈل اور مالک کون ہے؟دھماکہ بم سے ہوا یا سلنڈر پھٹا؟اگر دہشت گردی تھی تو حملہ آوروں کی شناخت کیا ہے؟جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج اب تک کیوں جاری نہیں کی گئی؟

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ واقعے کی تفتیش میں تضادات اور جلدبازی نے عوامی شکوک کو بڑھا دیا ہے۔ بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انتخابات سے قبل خوف اور نفرت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے واقعے کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔

Shares: