بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لال قلعے کے قریب ہونے والے دھماکے کے بعد غیر قانونی طور پر زیرِقبضہ جموں کشمیر میں سیکیورٹی کے نام پر شروع کئے گئے بڑے پیمانے پر چھاپوں ، تلاشی کی کارروائیوں اور سخت پابندیوں کی وجہ سے کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی پولیس ، پیراملٹری اہلکاروں اور تحقیقاتی اداروں نے بازاروں ، بس اڈوں ، ہسپتالوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور شاہراہوں پر تلاشی کی کارروائیاں تیز کردی ہیں ۔ شہری اور دیہی علاقوں میں مسلسل محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں جاری ہیں ، جس کی وجہ سے پورا مقبوضہ علاقہ ایک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہا ہے ۔وادی کشمیر میں حالات ابتر ہیں۔ شمالی سے جنوبی کشمیر تک ، بھارتی پولیس اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے نئی چوکیاں قائم کر دی ہیں، جہاں تلاشی کے لیے گاڑیوں کو روکا جا رہا ہے جبکہ گھروں پر بھی چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سخت پابندیوں اور محاصرے کے ماحول کی وجہ سے ان کے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ لوگوں میں شدید خو ف و ہراس پھیل گیاہے ۔مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جموں ریلوے سٹیشن پر مسافروں کو چوبیس گھنٹے ذلت آمیز تلاشی کی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سکیننگ ڈیوائسز اور دیگر آلات سے لیس بھارتی فورسز کی ٹیمیں مسافروں بشمول بزرگوں ، خواتین اور طلباء کو بار بار چیکنگ اور شناخت کی تصدیق کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ کٹھوعہ ، سانبہ ، ادھمپور اور جموں خطہ کے دیگر علاقوں میں بھی کشمیریوں کو اسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے ۔
انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق بھارتی فورسز لال قلعہ دھماکے کو اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے جموں کشمیر میں ایک "غیر معمولی کریک ڈائون” کا جواز فراہم کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ سخت پابندیاں ، چھاپے ، تلاشی کی کارروائیاں اور کشمیریوں کو ہراساں کرنا اور مقبوضہ کشمیرکی پوری آبادی کو سزا دینے کے مترادف اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے ۔کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی قابض حکام نے مسلسل نگرانی ، چھاپوں اور دھمکیوں کے ذریعے ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔








