بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے تقریباً دو کروڑ شہری ایسی فضا میں سانس لے کر بیدار ہوئے جو دنیا کے تمام بڑے شہروں میں سب سے زیادہ آلودہ تھی۔ یہ صورتحال ہندو تہوار دیوالی کی تقریبات کے اگلے ہی دن سامنے آئی، جس دوران روایتی طور پر آتش بازی اور پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں۔
سوئس فضائی معیار مانیٹرنگ کمپنی IQAir کے مطابق بدھ کے روز دہلی میں PM 2.5 یعنی فضائی آلودگی کے باریک ذرات کی مقدار عالمی ادارہ صحت (WHO) کی مقررہ سالانہ حد سے 40 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ یہ وہ ذرات ہیں جو انسانی سانس کے ذریعے پھیپھڑوں اور خون کے نظام تک پہنچ کر سنگین امراض پیدا کر سکتے ہیں۔دہلی میں فضائی آلودگی ایک مستقل مسئلہ ہے، تاہم سردیوں کے موسم میں یہ صورتحال انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دہلی کے گرد و نواح میں کسانوں کا کھیتوں میں فصل کی باقیات کو آگ لگانا ہے تاکہ اگلی فصل کی بوائی کے لیے زمین صاف کی جا سکے۔
اس سال دیوالی کے موقع پر فضا میں زہر گھولنے والی آتش بازی نے ماحولیاتی بحران کو مزید بڑھا دیا۔ پٹاخوں سے خارج ہونے والی سلفر آکسائیڈز، نائٹروجن آکسائیڈز اور بھاری دھاتیں فضا کو مضر صحت بنا دیتی ہیں۔اگرچہ 2020 میں دہلی کی حکومت نے پٹاخے بنانے، فروخت کرنے اور جلانے پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی، تاہم اس سال بھارتی سپریم کورٹ نے محدود وقت کے لیے “گرین” پٹاخوں کے استعمال کی اجازت دی، وہ پٹاخے جو مبینہ طور پر کم آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن شہریوں کے مطابق اس پابندی پر عملدرآمد انتہائی کمزور رہا، اور غیر قانونی پٹاخے بھی بآسانی دستیاب تھے۔
دہلی کی 30 سالہ رہائشی انوشکا سنگھ کا کہنا ہے کہ “ہر سال صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ میں دیوالی پر گھر سے نہیں نکلتی تاکہ اپنے کتے کو مسلسل شور سے بچا سکوں۔ صبح باہر نکلوں تو گلے میں خراش اور آنکھوں میں جلن شروع ہو جاتی ہے۔ دہلی میں جینا واقعی اذیت بن چکا ہے۔”ایک اور رہائشی چندرا ٹنڈن، جو ایک دکان کی مالک ہیں، کا کہنا تھا کہ “پٹاخے دیوالی کی خوشی کا حصہ ہیں، مگر اگلے دن کا دھواں برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر بڑے لوگ تھوڑا خیال کر لیں تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔”
دہلی میں حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے آلودگی پر قابو پانے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں، مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ان اقدامات میں سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ، گاڑیوں کے لیے Odd-Even نظام (یعنی ایک دن جفت نمبر اور دوسرے دن طاق نمبر والی گاڑیاں چلانا)، اور 2018 میں 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائے گئے سموگ ٹاورز شامل ہیں، جنہیں بڑے ایئر پیوریفائرز کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سختی سے عملدرآمد نہ ہونے اور مختلف محکموں کے درمیان رابطے کی کمی کے باعث آلودگی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بدھ کے روز IQAir کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دس سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں بھارت کے تین بڑے شہر شامل تھے،نئی دہلی پہلے نمبر پر،کلکتہ چوتھے نمبر پر،اور ممبئی دسویں نمبر پر تھا،ماہرین کے مطابق بھارت کو ایک طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور توانائی کی ضروریات پوری کرنا ہیں، جبکہ دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت اور زندگی کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔دہلی کی فضاء پر چھائی دھند اور سموگ کی موٹی تہہ اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا کے اس بڑے دارالحکومت میں سانس لینا آنے والے برسوں میں مزید مشکل ہو جائے گا۔








