لاہور:انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے فواد چوہدری اور شیخ رشید کی گرفتاریوں کے تناظر میں بغاوت کے قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بغاوت، غداری اور ’عوامی فساد‘ کو ہوا دینے والے بیانات کے الزامات پر حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور صحافیوں کی حالیہ گرفتاریوں اور اُن کیخلاف مقدمات کے اندراج پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بھتے کی کالز افغان واٹس ایپ نمبروں سے آتی ہیں،آئی جی خیبر پختونخوا

ایچ آر سی پی نے رات کے اندھیرے میں مکمل استثنیٰ کے ساتھ یہ گرفتاریوں، گرفتار افراد کی جانب سے اہلِ خانہ کو ہراساں کرنے کے الزامات اور املاک کی توڑ پھوڑ کو بھی باعث تشویش قرار دیا۔

اسلام آباد پولیس کا تحریری ٹیسٹ، 70 اقلیتی امیدوار کامیاب

انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اختلافِ رائے کو دبانے کیلئے نوآبادیاتی دور کے فرسودہ قوانین کو ڈھٹائی کے ساتھ بطورِ ہتھیار استعمال کیا ہے، اس سے کبھی کوئی جمہوری مقصد پورا نہیں ہوا۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہم گالی گلوچ یا دھمکی آمیز زبان یا بدزبانی کو ہرگز جائز قرار نہیں دیتے تاہم سیکشن 153-الف، 505 اور 124–الف کے تحت شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری جیسے رہنماؤں کی حالیہ گرفتاریوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ بغاوت کا قانون ضابطہ تعزیراتِ پاکستان سے ختم کیا جائے۔

فواد چودھری گرفتاری کے وقت نشے کی حالت میں تھے، میڈیکل رپورٹ

ایچ آر سی پی کے مطابق یہ قانون سیاسی انتقام کیلئے استعمال ہونے کی طویل تاریخ رکھتا ہے، ایسا کرنے کیلئے 2020ء کے اوائل میں سینیٹ میں شروع کیا سیاسی عمل فوری طور پر بحال کیا جانا چاہئے۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ دفعہ 124الف تقریر اور اظہار کے حق، جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، کے جائز استعمال پر پابندی کے مترادف ہے، حکومت سے اختلاف اور تنقید ایک متحرک جمہوریت میں مضبوط عوامی بحث کے لازمی اجزاء میں سے ہیں اور انہیں کبھی بھی بغاوت سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہئے۔

Shares: