ڈیرہ غازیخان – سیوریج سسٹم تباہ ،شہر کی مین شاہراہوں پر گڑھے ،حادثات معمول

ڈیرہ غازیخان – سیوریج سسٹم تباہ ،شہر کی مین شاہراہوں پر گڑھے ،حادثات معمول بن گئے،نکاسی آب کے سگین و بدترین مسئلے کو فوری حل نہ کیا تو شہر میں ممکنہ بڑی تباہی کو روکنا مشکل ہوگا
باغی ٹی وی : ڈیرہ غازی خان (شہزاد خان یوسفزئی کی رپورٹ)ڈیرہ غازی خان سو سال گزر جانے کے بعد ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس کا غالبا کسی کو ادراک تک نہیں ہمارے سروے کے مطابق سیوریج کی تباہ کن صورت حال کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے عوام کی تباہی و بربادی کیلئے بدترین سیوریج نظام ہی کافی ہے اس وقت شہر کی کوئی سڑک ایسی نہیں جس میں آئے روز شگاف نہ پڑتے ہوں حالانکہ بے پناہ حکومتی فنڈز کی فراہمی کے باوجود یہاں کی سڑکوں اور سیوریج و صفائی کا نظام درست نہ ہوسکا اس تمام صورتحال کا ذمہ دار یہاں سے منتخب ہونے والے سابق اور موجودہ عوامی نمائندوں کو ٹھہرایا جاتا ہے جنکی کرپشن، نااہلی یا عدم دلچسپی اور ناقص حکمت عملی کے باعٹ شہر کی یہ دگرگوں صورتحال ہے
انگزیز دور میں جب ڈیرہ غازی خان کو 1910 میں تعمیر کیا گیا تو شہر میں نکاسی آب کے موثر نظام کیلئے نالیوں کا سسٹم رکھا گیا جبکہ مین روڈز پر بڑے بڑے نالے تعمیر کئے گئے اس سے محلوں کی نالیوں کا پانی مین روڈز کے نالوں میں بہہ جاتا گزشتہ دو تین دہائیوں سے نالے اور نالیوں کے موثر نظام کو ختم کرتے کرتے سیوریج کے پائپ گلیوں اور سڑکوں پر ڈالنا شروع کئے گئے جس سے پورے کا پورا نظام درہم برہم ہوتا چلا گیا اب حالت ہے کہ نہ سیوریج کی تکمیل ہوتی ہے نہ نالیوں کے نظام کو کار گر سمجھا جا رہا ہے اس کی ذمہ داری سیاسی نمائندوں پر ضرور ڈالی جا سکتی ہے لیکن اصل مجرمانہ غفلت بیوروکریسی اور مختلف محکموں کے ائنجیرز حضرات پر عائد ہوتی ہے جہنوں نے اپنے کیمشنوں کے چکر میں نہ صرف نااہل ہونے کا ثبوت دیا بلکہ اس مجرمانہ غفلت کے باعث آج پورے شہر میں ہر طرف ڈینامنت نصب ہیں جو چھوٹے چھوٹے آفٹر شاکس کے بعد کسی بھی لمحے کسی بڑے دھماکے کے ہونے کا عندیہ ہے ماضی میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی ڈیرہ غازی خان کو دے دی گئی اور یوں وسیب کے سپوت سردار عثمان خان بزدار وزیر اعلی پنجاب بن گئے انہوں نے عالاقائی تعمیر و ترقی کیلئے بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کا آغاز کیا اربوں روپے کی گرانٹس دی گئیں لیکن اصل مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا اگر اس شہر کے سیوریج منصوبے کو ازسر نو سروے کرانے کے بعد کسی بڑی کمپنی کے ذریعے کام کرایا جاتا تو لامحالہ اس منصوبے سے ڈیرہ غازی خان شہر کے عوام کو ضرور سکھ میسر آتا مگر افسوس کہ اربوں کھربوں روپے کے فنڈز مٹی میں بہا دیئے گئے یا پھر کرپٹ آفیسران کے ذریعے ذاتی تجوریاں بھر لی گئیں مگر نکاسی آب کے سنگین و بدترین مسائل کو حل نہ کیا گیا اس سے قبل بھی یہاں سے صدر مملکت، وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر اور وفاقی وصوبائی وزراء رہے مگر کیا مجال کہ کسی نے بھی اس مسئلے کے حل پر توجہ دی ہو ہاں البتہ سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور انکے فرزند سابق وزیر اعلی پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ نے اپنے دور میں انفراسٹرکچر کے مسائل کے ساتھ ساتھ تعیلم، صحت، اریگشین کے شعبہ جات میں مثالی اقدامات کئے اور آبادی کے اعتبار سے سیوریج لائنوں کو بچھانے کا کام بھی کیا لیکن اس کے بعد 20 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد منتخب ہونے والے اراکین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ بڑھتے ہوئے آبادی کے مسائل کو مدنظر رکھ کر سیوریج کے لئے ازسر کام کرتے مگر ایسا نہ ہوا عوام کے یہ نمائندے آتے رہے اور جاتے رہے پرانے طرز زندگی کو تباہ کرتے رہے آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کس قدر بدقسمت لوگ ہیں کہ جن کے نمائندوں کے پاس بڑے سے بڑا اقتدار ہونے کے باوجود شہر کی سیوریج بہتر نہ ہوسکی وہ اجتماعی سطح پر علاقے کی کیا محرومیاں دور کریں گے اور ویسے بھی موجودہ عہد کے نمائندوں سے تو اس لئے بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ یہ لوگ تو اداکار زیادہ اور سیاست دان کم لگتے ہیں کیوں انکا مسلسل فوٹو شوٹ چل رہا ہوتا ہے موجودہ تباہی کے ذمہ دار ان سلفی سٹارز کو عوام پہچانیں انکا محاسبہ کرنے کیلئے تیار ہوں جہنوں نے صحت تعیلم، انفراسٹرکچر، پینے کے صاف پانی کی فراہمی صفائی و ستھرائی اور نکاسی آب جیسے اہم اور بنیادی مسائل ہی حل نہ کئے ان سے میگا ترقی و خوشحالی ملے یہ ممکن ہی نہیں

Leave a reply