سویلین کے کورٹ مارشل سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سپریم کورٹ کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ آئین کے مطابق ہے اور فوجی تنصیبات پر حملے دفاعی قوانین کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات عام ہنگامہ آرائی نہیں تھے بلکہ براہِ راست دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔تحریری فیصلہ 68 صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا۔ جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اضافی نوٹ سے اتفاق کیا، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی ایکٹ کے تحت شہریوں کو اپیل کا حق حاصل ہے اور یہ حق مؤثر اور حقیقی ہونا ضروری ہے۔ فوجی ٹرائل میں شفافیت اور منصفانہ کارروائی لازم ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ مناسب آئینی ردعمل آرمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینا نہیں بلکہ عام شہریوں کے لیے اپیل کے مؤثر فورم کی فراہمی ہے۔ اس مقصد کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہری ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کر سکیں۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حقِ اپیل پر حکومتی ہدایات لینے کے لیے وقت مانگا اور عدالت کو یقین دلایا کہ عدالتی حکم کی روشنی میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے 7 مئی 2025 کو انٹراکورٹ اپیلوں پر فیصلہ سنایا تھا، جس میں پانچ ججز نے اپیلیں منظور جبکہ دو نے مسترد کر دی تھیں۔

حنیف عباسی سے امریکی ناظم الامور کی ملاقات، سرمایہ کاری پر گفتگوٕ

غیرقانونی ادویات اور اشتہارات کا الزام،حکیم شہزاد کی گرفتاری کا حکم

پیوٹن کی ٹرمپ کو ’نیو اسٹارٹ‘ معاہدے میں توسیع کی پیشکش
لندن میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دے دیا گیا

Shares: