ڈی جی کینال اور رابطہ نہروں کو سالانہ کیا جائے

ڈی جی کینال اور رابطہ نہروں کو سالانہ کیا جائے
تحریر : ملک خلیل الرحمٰن واسنی
پنجاب کا آخری اور پسماندہ ترین ضلع, ضلع راجن پور اسکی تینوں تحصیلیں روجھان،راجن پور ،جام پور ،قبائلی علاقہ /ٹرائیبل ایریا، علاقہ پچادھ جو کہ ہر دور میں میگا پراجیکٹس سے محروم رہا ہے بدقسمتی کہیں یا ستم ظریفی ہر دور میں استحصال و پسماندگی کا بھی شکار رہا ہے یہاں کا زیر زمین پانی کڑوا اور مضر صحت ہے پینے کے پانی اور فصلات کی سیرابی کا واحد ذریعہ تونسہ بیراج سے نکلنے والی ڈی جی کینال،اسکی لنک کینالز ، داجل کینال،لنک تھری کینال اور قادرہ کینال اور مزید درجنوں چھوٹی چھوٹی نہریں ندی نالے جوکہ سینکڑوں کلومیٹرز پر محیط ہیں اور صوبہ سندھ کی سرحد تک ٹیل کے لاکھوں انسانوں ، جانداروں کو پینے کے پانی کی فراہمی کیساتھ ساتھ ہزاروں ایکڑ رقبہ پر فصلات کی سیرابی کا ذریعہ ہیں جوکہ کاغذی کاروائی اور فائلوں کی حد تک تو ششماہی ہیں مگر پانی سہ ماہی بنیادوں پر بھی میسر نہیں؟ گندم،کپاس گنا و دیگر اجناس کی بہترین کاشت کے بہترین رقبے ہیں مگر پانی کی عدم فراہمی کے باعث غریب و مجبور و بے بس و لا چار متوسط طبقے کا عام کسان ، کاشتکار، چھوٹا زمیندار شدید مشکلات و پریشانیوں کا شکار ہے متعلقہ حکام و افسران اس اہم ترین مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے سے قاصر ہیں اور ہر دور طفل تسلیوں ، جھوٹے وعدوں دعووں اور فنڈز کی عدم کی دستیابی کا کہہ ٹال دیتے ہیں اور اپنے فرائض سے عہدہ برآں ہوجاتے ہیں جسکے سبب ہر تین ماہ بعد یہاں کا کسان احتجاج دھرنوں اور محکمہ انہار کے دفاتر کے گھیراؤ پر مجبور ہوتا ہے اور سینکڑوں کسانوں پر جھوٹے اور من گھڑت پرچے ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں جہاں انہوں نےتھانوں ، جیلوں، کچہریوں کی صعوبتیں بھی برداشت کیں جس کے بعد نہروں میں پانی میسر آتا ہے جبکہ اس کے برعکس ہر سال مون سون بارشوں کیصورت میں کاہا۔،چھاچھڑ ،سوری ،پتوخ و دیگر دروں اور سیلابی نالوں و ریلوں سے غریب کسان ڈوب رہا ہوتا ہے اور اپنی قیمتی جانیں ،املاک، جانور، فصلیں سیلاب کی نذر کر بیٹھتا ہے یاپھر 6سے 9 ماہ خشک سالی کا شکار رہتا ہے جبکہ سابق صدر فاروق احمد لغاری کے دور 1980 کی دہائی سے مڑنج /مرنج ڈیم کی تعمیر کا سنتے آئے ہیں جس کی فیزیبلیٹی رپورٹس اور نیسپاک سے معاہدوں کیصورت میں کروڑوں روپے خرچ کردیئے گئے طیب ڈرین پراجیکٹ اور ڈی جی کینال و داجل کینال کے توسیعی منصوبوں پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوچکے مگر ان سب کے باوجود ضلع راجن پور کے انڈس ہائی وے کے مغربی طرف سے سیلابی ریلے تباہی مچاتے ہیں اور مشرقی جانب سے دریائی کٹاؤ بربادی کا مؤجب ہے پنجاب اسمبلی میں بھی مخصوص نشت پر خاتون ممبر پنجاب اسمبلی محترمہ شازیہ عابد ایڈووکیٹ صاحبہ بارہا آبدیدہ ہوکر اس ایوان کو توجہ دلاچکیں مگر افسوس آج تک صورتحال ابتر سے ابتر ہے اور مزید ابتر ہوتی جارہی ہے۔
ان کینالز کی سالانہ بھل صفائی، پشتوں کی مضبوطی ان کینالز کے اطراف لگے درختوں کا کٹاؤ و خاتمہ ایک الگ بحث ہے؟
کہنے کو تو دنیا کا بہترین نہری نظام ہمارے ملک میں ہے مگر سیلاب کے خطرہ کے پیش نظر سیلابی ریلوں کی قدرتی گذرگاہوں کی صفائی تک یقینی نہیں بنائی جاتی اور 2022 کے سیلاب سے متاثرہ نہروں ، ندی نالوں کے پشتوں کی مضبوطی اور لگے کٹس تاحال پر نہیں کیئے گئے جو کہ متعلقہ محکموں و اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں اور یہاں کے کسان کاشتکار کو پسماندہ رکھنے و پسماندہ کرنے کی شاید ایک سوچی سمجھی سازش ہے؟ جو کہ بہت بڑا المیہ ہے اور اور سب سے بڑھ کر بدقسمتی سابقہ ادوار میں صوبائی وزیر آبپاشی بھی اس ضلع سے رہے ہیں جو یہاں کے غریب عوام کو یہ بنیادی سہولت فراہم کرنے میں ہر دور میں ناکام رہے ہیں
اس لیئے متعلقہ حکام سے دست بستہ گزارش،اپیل التجاء اور پر زور و بھر پور مطالبہ ہے کہ ڈی جی کینال، داجل کینال، لنک تھری کینال، قادرہ کینال میں سالانہ بنیادوں پر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب کسان کاشتکار کا معاشی استحصال اور معاشی قتل عام ختم ہوسکے
پر امید ہیں کہ اپنی اولین فرصت میں اور ترجیحی بنیادوں پر اس اہم حل طلب معاملے کے مستقل حل کے لیئے آپکے قلم کی ایک جنبش بدقسمت ضلع راجن پور اور اسکے لاکھوں علاقہ مکینوں کی معاشی ترقی میں بہتری اور استحکام کے لیئے عظیم تر کار خیر کا باعث ہوگی

Comments are closed.