ڈی جی خان(باغی ٹی وی )بلوچ لیوی اور بی ایم پی ملازمین سرکاری مراعات سے محروم کر دیئے گئے
اکائونٹنٹ بادشاہ نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے احکامات کی دھجیاں اڑا دیں۔فنانس ڈیپارٹمنٹ اور لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے احکامات کرپشن کی نظر ہو گئے ، ملازمین فریادی
تفصیلات کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں بلوچ لیوی فورس اور بارڈر ملٹری پولیس پنجاب پولیس کا حصہ ہیں ،ہوم ڈیپارٹمنٹ کے نوٹیفکیشن No.NP-1/6-9/90بتاریخ 18/03/1992 جو کہ لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کی جسٹس فخرالنساء نے رٹ پٹیشن نمبر 11761 کے فیصلہ کی روشنی میں بلوچ لیوی اور بی ایم پی کے پے سکیل اپ گریڈ کرنے اور پولیس رولز اور مراعات کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق سروس سٹرکچر ،رولز،ڈیوٹی بھی پنجاب پولیس کے مطابق ہے۔
بلکہ بلوچ لیوی فورس تو ایک ایسی فورس ہے جہاں بارڈر ملٹری پولیس اور پنجاب پولیس کو لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر قابو پانے میں مشکلات سامنا ہو تو وہاں پر بلوچ لیوی فورس کے جوانوں کو تعینات کیا جاتاہے ،جس کی مثال راجن پور کچے کا آپریشن ہو یا پھر ڈی جی خان میں لادی گینگ کے خلاف پولیس آپریشن ہو، وہاں بلوچ لیوی فورس نے ہمیشہ ہراول دستے کے طور پر اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دیں ۔اس سب کے باوجود پنجاب پولیس کو تو تمام مراعات حاصل ہیں مگر بلوچ لیوی اور بی ایم پی کے ملازمین یکسر محروم ہیں ، نہ تو بلوچ لیوی اور بی ایم پی ملازمین کو لا ء اینڈ آرڈر الائونس دیا جاتا ہے اور نہ ہی FDA کی سہولت میسر ہے ۔ اگر پنجاب پولیس ،بلوچ لیوی اور بی ایم پی کے سکیلز کا جائزہ لیں تو پنجاب پولیس میں ڈی ایس پی کا گریڈ 17ہے تو اس کے برابر بلوچ لیوی میں صوبیدار میجر کا عہدہ ہے اور بی ایم پی میں اسی گریڈ میں رسالدار ہے ،پولیس انسپکٹر گریڈ 16کے برابر بلوچ لیوی میں صوبیدار اور بی ایم پی میں جمعدار ہے ،پولیس سب انسپکٹر کے برابر بلوچ لیوی میں نائب صوبیدار جبکہ بی ایم پی میں دفعدار ہوتا ہے ، پولیس ASI کے مقابلے میں بلوچ لیوی میں حوالدار جبکہ بی ایم پی میں نائب دفعدار ،پولیس کا ہیڈ کانسٹیبل 9 گریڈ میں ہے تو بلوچ لیوی میں نائک اور بی ایم پی میں محرر ہے ،اسی طرح پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کے برابر میں بلوچ لیوی کا سپاہی اور بی ایم پی میں سوار ہوتا ہے ،اس طرح باقی تمام ملازمین کے سکیلز بھی پنجاب پولیس کے سکیلز کے مطابق ہیں لیکن پولیس کو تو لاء اینڈ آرڈر ،کانسٹیبلری الائونس اور رسک الائونس کے علاوہ FDA بھی مل رہا حالانکہ پنجاب پولیس ڈی جی خان کے سیٹلڈ ایریا جو کہ ڈی جی خان 48 فیصد ہے جس کے 18 تھانہ جات ہیں جبکہ اس کے مقابلے بی ایم پی ڈیرہ غازی خان کے رقبہ کے 52 فیصد حصہ جو کہ ٹرائیبل ایریا پر مشتمل ہے جہاں ان کے 26 تھانہ جات ہیں کا کنٹرول سنبھالتی ہے جبکہ بلوچ لیوی لیوی سے ٹرائبل ایریا کے ساتھ ساتھ سٹی اور سیٹلڈ ایریا میں بھی ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں کے تمام ملازمین پولیس رولز کے تحت ملنے والی تمام مراعات سے محروم ہیں۔حکومت پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری فنانس ڈیپارٹمنٹ طارق محمد مرزا کی طرف سے جاری کیا گیا لیٹر نمبری HP-11/9-1/2009 مورخہ08/12/2009 جس میں احکامات جاری کیے گئے کہ بی ایم پی ڈی جی خان،راجن پور اور بلوچ لیوی ڈیرہ غازی خان کو ان کے پے سکیل کے مطابق رسک الائونس 20 دن کے ڈیلی فکس الائونس دیئے جائیں،یاد رہے کہ حکومت پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری فنانس نے یہ لیٹرلاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں عدالت عالیہ کے حکم کے بعد جاری کیا تھا۔لیکن آج تک اس لیٹرپرعملدرآمد نہیں کیاجاسکا،بلوچ لیوی اور بی ایم پی کے ملازمین حکومت پنجاب کی طرف دی جانے والی مراعات سے محروم ہیں۔
دوسری طرف ذرائع کاکہنا ہے کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ ڈیرہ غازیخان اور ڈپٹی کمشنر آفس سے بلوچ لیوی اور بی ایم پی پر مسلط کیا گیااکائونٹنٹ آغارضاحسین BPS 16نے اپنی کمائی کاذریعہ بنانے کیلئے بلوچ لیوی اور بی ایم پی ملازمین کو ایف ڈی اے کی مد میں ملنے والی سہولت سے محروم کردیا،ذرائع کایہ بھی بتانا ہے کہ اکائونٹنٹ آغارضاحسین ایک نائب قاصد کے ذریعے فنانس ڈیپارٹمنٹ ڈیرہ غازیخان میں اپنے تمام معاملات طے کرتا ہے،ایف ڈی اے کی کٹوٹی پر بلوچ لیوی کے ملازمین سابق ڈپٹی کمشنر جمیل احمد جمیل کے پاس گئے اور ہونے والی زیادتیوں سے متعلق آگاہ کیاجس پر ڈپٹی کمشنر نے اکائونٹنٹ آغارضاحسین کوطلب کرکے اس کی سرزنش کی اور ملازمین کے مسائل حل کرنے اور ایف ڈی اے سمیت پولیس رولز کے مطابق مراعات دینے کا حکم دیا اس دوران ڈپٹی کمشنر جمیل احمد جمیل کا ڈیرہ غازیخان سے تبادلہ ہوگیا،اس کے بعد بلوچ لیوی اور بی ایم پی ملازمین کی مراعات معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا،جنہیں آج تک گورنمنٹ آف پنجاب سے پولیس رولز کے تحت ملنے والی سہولیات سے محروم رکھاجارہاہے ،جس سے ملازمین بے چینی اور بے یقینی کاشکار ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ FDA کی سمری کی فائل اس وقت بھی ڈپٹی کمشنرکی ٹیبل پر موجود ہے لیکن موجودہ ڈپٹی کمشنرنے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔

Shares: