ڈیرہ غازی خان (باغی ٹی وی رپورٹ)میڈیسن اسکینڈل،حکومتی یوٹرن، دباؤ یا پردہ پوشی؟ اصل مجرم کون؟
ڈیرہ غازی خان میں سرکاری ادویات کے اسکینڈل نے محکمہ صحت اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ اس اسکینڈل میں روزانہ کی بنیاد پر ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ پہلے چھوٹے ملازمین کو نشانہ بنایا گیا مگر اب بڑے افسران پر بھی شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں اب تک چار اعلی عہدیداران کو معطل کیا جا چکا ہے، جن میں سی ای او ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر ادریس لغاری، ڈرگ کنٹرولر فیصل محمود، سیکرٹری ڈسٹرکٹ کوالٹی بورڈ آصف عباس اور ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر تحسین شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر معطلی کی اصل وجہ کرپشن یا میڈیسن چوری نہیں بلکہ حکومت کو غلط معلومات فراہم کرنا بتائی جا رہی ہے۔ یہ پہلو خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اگر افسران کرپشن میں ملوث نہیں تو انہیں کیوں ہٹایا گیا؟
تحقیقات کے آغاز میں ڈرگ کنٹرولر فیصل محمود کو اطلاع ملی کہ جنرل بس اسٹینڈ ڈیرہ غازی خان سے سرکاری چوری شدہ ادویات مختلف شہروں میں بھیجی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے بندوں کو نگرانی پر لگا دیا اور 29 جنوری کو ایک شخص کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا، جس نے انکشاف کیا کہ یہ ادویات ڈی ایچ او آفس کے ملازم پرویز اختر نے فراہم کی ہیں۔ دونوں کو ادویات سمیت تھانہ گدائی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات میں بھاری مقدار میں چوری شدہ ادویات برآمد ہوئیں۔ چوکی انچارج لاری اڈہ، تھانہ گدائی نے پریس کانفرنس کر کے معاملے کو ہائی لیول تک پہنچا دیا۔ اس انکشاف پر میڈیسن مافیا کے سرپرست متحرک ہو گئے۔ معاملہ دبانے کے لیے چوکی انچارج کو رشوت کی بھاری پیشکش کی گئی لیکن اس نے آفر مسترد کر دی۔ بعد ازاں ایف آئی آر میں ادویات کی بڑی مقدار کو نظر انداز کر کے محض چند سیرپ درج کیے گئے۔ اس طرح بااثر افراد نے چالاکی سے گرفتاریوں کو جوڈیشل کروا کر تفتیش رکوا دی۔
یہ بھی پڑھیں
ڈیرہ غازی خان :ادویات اسکینڈل، معطلیوں کی گونج، بڑی مچھلیاں محفوظ؟
ڈیرہ غازی خان: ڈیڑھ ارب سے زائد کی ادویات کا چوری اسکینڈل، محکمہ صحت کے ذمہ دار ہی لٹیرے نکلے
ڈیرہ غازی خان: پولیس چوکی لاری اڈہ کی کارروائی، 1 کروڑ روپے مالیت کی چوری شدہ سرکاری ادویات برآمد
جب معاملہ سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کے علم میں آیا تو فوری طور پر کیس اینٹی کرپشن کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ لیکن اس دوران سابق ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے فائل دبائے رکھی اور کوئی باضابطہ انکوائری نہ ہوئی۔ موجودہ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کے حکم پر کیس کی فائل دوبارہ کھلوائی اور ریگولر انکوائری سرکل آفیسر ملک عبدالمجید کے سپرد کی، جنہوں نے تحقیقات کو آگے بڑھایا۔ پہلے ایک سابق اور ایک موجودہ اسٹور کیپر کو گرفتار کیا گیا، پھر معتبر ذرائع کی اطلاعات پر مزید افراد کو حراست میں لے کر دیہی مرکز صحت سرور والی کے میڈیسن گودام پر چھاپہ مارا گیا۔ چھاپے کے دوران معلوم ہوا کہ ادویات انتہائی خفیہ طریقے سے چھپائی گئی تھیں۔
اس انکشاف پر وزیر صحت پنجاب عمران نذیر کے دفتر سے بڑے نیوز چینلز پر خبر نشر کرائی گئی کہ ڈیرہ غازی خان میں 1 ارب 70 کروڑ روپے کی چوری شدہ سرکاری ادویات برآمد ہوئیں۔ اس خبر کے بعد حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی، لیکن چند ہی گھنٹوں میں محکمہ صحت پنجاب نے یوٹرن لیتے ہوئے اپنی ہی خبر کو "فیک” قرار دے دیا اور چار افسران کی معطلی کے احکامات جاری کر دیے۔ معطلی کا جواز کرپشن، ملی بھگت، نااہلی یا کریمنل ایکٹ کو نہیں بلکہ صرف "غلط معلومات دینے” کو بنایا گیا۔
دوسری جانب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور پولیس اپنی سطح پر تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن محکمہ صحت معاملے کو دبانے کے لیے اسے محکمانہ انکوائری تک محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ چند چھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا کر بڑے مگرمچھوں کو محفوظ رکھا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل کے تانے بانے سابق ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اطہر سکھانی سے جا ملتے ہیں، جن کے کچھ قریبی لوگ ماضی قریب میں گرین میڈیسن کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث رہے ہیں جو سرکاری ادویات رکنی بلوچستان اور ڈیرہ غازیخان کے نواحی علاقوں قائم میڈیکل سٹوروں اور پریکٹیشنر کو بیچتے رہے ہیں۔
اس اسکینڈل میں ایک اور بڑا تنازعہ ضبط شدہ ادویات سے جڑا ہے۔دیہی مرکزصحت سرورکے تین کمروں سے بھاری مقدار میں ادویات برآمد ہوئیں۔ محکمہ صحت پنجاب نے ابتدائی طور پر ان کی مالیت 1 ارب 70 کروڑ روپے بتائی مگر بعد میں موقف بدلا کہ یہ ادویات مختلف ڈونرز کمپنیوں اور ضلعی ہیلتھ اتھارٹی کی ملکیت تھیں، جو 15 سال سے گودام میں رکھی جا رہی تھیں۔ مزید تحقیقات کے بعد ایک اعلی سطحی ٹیم نے جس میں ڈاکٹر اطہر سکھانی بھی شامل تھے نے ریکارڈ کی جانچ کے بعد ان ادویات کو ریلیز کر دیا۔ اس عمل نے مزید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
انٹی کرپشن کے سرکل آفیسر ملک عبدالمجید اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور اب تک متعدد گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ لاہور سے علی عثمان اور ظفر جبکہ ڈیرہ غازی خان سے پرویز، اکرام اللہ، اطہر شیرانی، بشیر احمد، عامر تیمور اور سراج کو ریمانڈ پر لیا گیا ہے۔ حکام نے مزید گرفتاریوں کا عندیہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں سی ای او ڈاکٹر ادریس لغاری کو حکومتی ہدایت پر عہدہ چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ راجن پور کے سی ای او ڈاکٹر عبدالکریم رمدانی کو چارج دیا گیا ہے۔
اس پورے معاملے میں کئی بنیادی سوالات اٹھتے ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا:
اگر یہ ادویات 15 سال سے موجود تھیں تو انہیں عوام کے علاج کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟
محکمہ صحت پنجاب نے ابتدا میں ایک موقف اختیار کیا، پھر اچانک اسے کیوں بدلا؟
ڈرگ کنٹرولر فیصل محمود، جو خود مدعی تھے، انہیں کیوں معطل کیا گیا؟
اگر یہ اسٹاک پرانا ہے تو 15 سال سے مسلسل اس میں اضافہ کیوں ہو رہا تھا؟
اس اسٹاک کی لاگ بک اور اسٹاک رجسٹر میں بیچ نمبر اور دیگر تفصیلات کیوں چیک نہیں کی گئیں؟
2010، 2012، 2020 اور 2022 میں یونیسیف اور دیگر انٹرنیشنل ڈونر ایجنسیوں کی جانب سے دی گئی اربوں روپے کی میڈیسن، اعلی معیار کی چاکلیٹ، بسکٹ اور فوڈ سپلیمنٹ کیوں خفیہ گوداموں میں رکھے؟
یہ امدادی اشیا مستحق عوام میں تقسیم کیوں نہیں کی گئیں؟
ان تمام ادوار میں سی ای او ہیلتھ اتھارٹی اور ڈی ایچ او کون تھے؟
کیا ان افسران سے بازپرس نہیں ہونی چاہیے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ادویات اور فوڈ سپلیمنٹ فروخت کے لیے رکھے گئے تھے، لیکن انہیں مارکیٹ میں فروخت کرنے کا موقع نہ مل سکا؟
یہ اسکینڈل محکمہ صحت پر عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا چکا ہے۔ عوام کی نظر میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا صحت کے شعبے میں مزید ایسے گھوٹالے چھپائے جا رہے ہیں؟ اس واقعے کے بعد حکومت کو صحت کے نظام میں انتظامی اصلاحات پر غور کرنا ہوگا۔ ادویات کی خریداری، ذخیرہ اور ان کے ریکارڈ کی نگرانی کو مزید سخت بنانے کے لیے نئے ضوابط متعارف کرانا ناگزیر ہو چکا ہے۔