ڈی جی خان کے مافیا اور امید کی کرن

ڈی جی خان کے مافیا اور امید کی کرن
تحریر:حاجی محمد سعید گندی
مافیا منظم جرائم پیشہ گروپ کو کہا جاتا ہے، ابتدا میں مافیا اٹلی کے صقلیہ کے مجرم عناصر کو کہا جاتا تھا، انہیں "کوسا نوسترا” (Cosa Nostra) بھی کہا جاتا ہے جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں صقلیہ میں خوب پھل پھول رہے تھے۔ بعد ازاں مافیا کی اصطلاح عام ہو گئی۔

کئی سال پہلے تک میں نے کبھی ایساسوچا بھی نہیں تھا کہ اپنے ملک اور اپنے ہی شہر میں اس طرح کے ماحول کاسامناکرنا پڑے گا۔ڈیرہ غازیخان کے شہری اور دیہی علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر کا راج قائم ہوچکا ہے، شہریوں کا گھروں سے نکلنا محال ہوگیا ، مسلح افراد انہیں لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں، اسٹریٹ کرائم بڑھ چکی ہیں ، خواتین اور بچوں کا گھر سے اکیلے نکلنا ناممکن ہوگیا ہے ، راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں کا موبائل فون ، نقدی اور دیگر قیمتی اشیا ء چھیننا معمول بنتا جارہا ہے

ان سب کے علاوہ ڈیرہ غازی خان میں ایرانی تیل، نان کسٹم پیڈ اشیاء، منشیات کی سمگلنگ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے سینکڑوں غیرقانونی منی پٹرول پمپس قائم ہوچکے ہیں، احتیاطی تدابیر نہ ہونے کی وجہ سے پمپس مالکان انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، منشیات کے باآسانی دستیاب ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے،

ڈیرہ غازی خان کے تھانہ سٹی، تھانہ سول لائن، تھانہ گدائی، تھانہ بی ڈویثرن، تھانہ صدر،تھانہ سخی سروراورتھانہ شاہ صدردین ودیگرتھانہ جات کی حدود میں منشیات فروشوں کو کھلی چھٹی ہے، اس مکروہ دھندے میں کچھ پولیس کی کالی بھیڑوں کی مکمل ساجھے داری ہے، شہزاد کالونی ،اختر کالونی شہر کے وسط میں بلاکوں، ریلوے اسٹیشن کے نزدیک محبوب آباد، 3مرلہ سکیم ،چوک چورہٹہ شہر کا کوئی ایسا کونہ نہیں جہاں منشیات آسانی سے دستیاب نہ ہوں،

اور منشیات ایسے دستیاب ہے جیسے کریانہ سٹور پر چینی ،چائے کی پتی اور دیگراشیائے ضروریہ، سب سے بڑا المیہ روڈ کے کناروں ،نہر کنارے گلی محلوں میں جھنڈ کی شکل میں نشئی حضرات دیکھے جاسکتے ہیں ،جن میں نوجوان مردوں کے ساتھ نوجوان لڑکیاں بھی اپنی نشے کی لت پوری کر رہی ہوتی ہیں، یہ منشیات یہاں تک محدود نہیں شہرکے پوش علاقوں میں بھی کوٹھیوں ،کلبوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ دھندہ گذشتہ کئی سالوں سے چل رہاہے لیکن اب بام عروج پرپہنچ چکاہے، اس دھندہ میں مقامی بااثر افراد بھی شامل ہیں

ایک رپورٹ کے مطابق یہ منشیات تعلیمی اداروں، نجی و سرکاری ہسپتالوں ،گیسٹ ہاؤسز میں بھی سپلائی کی جاتی ہیں، جس سےسٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد منشیات کی طرف راغب ہورہی ہے، یہاں پولیس اور دوسرے اداروں کی کارکردگی پر بہت سے سوالات ہیں۔بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ انکی مکمل آشیرباد سے یہ دھندہ جاری ہے

اگرتھانوں میں تعینات پولیس ملازمین اور ان کے افسران کے موبائل فون کاڈیٹا نکالا جائے تو بہت سے پولیس میں موجودکالی بھیڑوں کے نام سامنے آجائیں گے جو نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار ر ہے ہیں

دوسری طرف آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق ڈیرہ غازی خان شہر و گردونواح میں ایرانی تیل کے سینکڑوں غیر قانونی ڈپو اور منی پٹرول پمپ قائم ہیں،اس کے علاوہ بڑا المیہ یہ ہے کہ ذرائع کا بتانا ہے کہ پولیس ویلفیئر پمپ جوکہ شہر وسط میں واقع ہے یہاں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر، سول ڈیفنس، کمشنر ریجنل پولیس آفیسرکے دفاترکی دیوار کے ساتھ پمپ پر ایرانی تیل با آسانی پہنچ جاتا ،جس کی ترسیل دن رات جاری رہتی ہے، سرکاری گاڑیوں کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیاں کھٹارہ ہونے لگی ہیں اس جگہ سمیت دوسرے جگہوں پر ایرانی تیل کا پہنچنا انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔

پولیس پٹرول پمپ سے کتنے شرفاءمستفید ہوتے ہیں یہ ایک الگ داستان ہے،اس کے علاوہ سپیشل برانچ کے آفیسرز کا چپ رہنا بہت سے سوالات کو جنم دیتاہے ،سب سے اہم بات جن پولیس ملازمین کا نام ایرانی تیل سمگلنگ لسٹ میں شامل ہے ان میں سے کچھ افسران ابھی تک انہی جگہوں پر تعینات ہیں ایسے لوگوں کو سیاسی لوگوں کی آشیرباد حاصل ہے ۔

حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے چارج سنبھالا ہے ان کے اردگرد انہی پرانے لوگوں کا جم گٹھا رہے گا تو روڈوں پر سمگلنگ، شہر بھر میں منشیات کی سپلائی کو روکنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا۔

یہاں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں” ایک بوڑھی خاتون بس پر سوار ہوئی تو اس سے بس کنڈیکٹر نے پوچھا اماں جی آپ نے کہا جانا ہے دراہمہ، پل غازی گھاٹ، ڈڈو موڑ، چوک قریشی، بصیرہ مظفرگڑھ خاتون نے کہا میں نے تو اپنے رشتہ دار جبار کے گھر جانا ہے۔کنڈیکٹر نے کہا اماں جی مجھے کیا پتاآپ کے رشتے دار جبار کا گھر کہاں ہے؟ تو بڑی اماں نے ناراض ہو کر کہا روڈ پر اتنے سٹاپ تو توجانتا ہے ،میرے رشتہ دار جبار کو کیوں نہیں جانتا ؟ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کےگرد بھی کچھ اسی طرح کے لوگ موجود ہیں جو صرف اپنوں کو یاد رکھتے ہیں جو ان کو نوازتے ہیں ،یہی لوگ کسی شریف اورایماندار افسر کی تعیناتی میں کیڑے ہی نکالتے ہیں،

اعلیٰ آفیسران کے بغل میں بیٹھے پالیسی میکرز منشیات، نان کسٹم پیڈاشیاء، ایرانی تیل کی سمگلنگ کو روکنے کی بجائے بارڈر ملٹری پولیس، پنجاب پولیس، کسٹم حکام کے ملازم خود سمگلنگ میں ملوث ہیں ۔جن کی باقاعدہ لسٹیں بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں،

ڈیرہ غازیخان میں نئے تعینات ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازیخان واحد امید کرن ہیں جو مافیا پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں اورانہیں قانون کے کٹہرے میں بھی لاسکتے ہیں اور ضلعی سطح پرصرف یہی اعلیٰ اور بااختیارآفیسران ہیں جو سسکتی انسانیت کوبچاسکتے ہیں۔

Leave a reply