چنیوٹ: دھول کے طوفان میں پھنسی عوام، منتخب نمائندے غائب

چنیوٹ: دھول کے طوفان میں پھنسی عوام، منتخب نمائندے غائب
تحریر:حسن معاویہ جٹ
رجوعہ/بہادری والا کارپٹ روڈ جس کے دونوں طرف کچا راستہ ہے، ماضی میں اس کچے راستے کی حالت خراب تھی یعنی اس پر وقفے وقفے سے کھڈے پڑے ہوئے تھے، جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا تھا۔ پھر کسی نے اس راستے کو بہتر بنانے کی کوشش کی، اور کچے راستے پر مٹی ڈالی گئی، یہ امید کرتے ہوئے کہ شاید اس سے راستہ بہتر ہو جائے۔ کھڈے تو ختم ہوگئے، مگر نتیجہ کچھ اور نکلا۔ روڈ ذرا وسیع ہوگیا مگر مٹی ڈالنے کے بعد یہ صورتحال بن گئی کہ بائیکرز، سائیکل سوار اور پیدل چلنے والے مٹی کے طوفان میں سے گزرتے ہیں۔

جی ہاں، جب گاڑیاں تیز رفتاری سے گزرتی ہیں تو مٹی کا طوفان اڑتا ہوا ہر "بے کار” کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ پہلے لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں کپڑے گندے نہ ہو جائیں لیکن اب ہر کوئی اس دھول کے "خوبصورت تحفے” کا عادی ہو چکا ہے۔ ہر کوئی بے خوف ہو کر پھیپھڑوں کو تگڑا کرکے گھر سے نکلتا ہے۔ وہ لوگ جو ٹھٹھہ ٹھاکر، باغ، ابووالا، رتھانوالہ، رجوعہ اور دیگر علاقوں کے رہائشی ہیں، وہی جانتے ہیں کہ اس راستے سے گزرنا "بے کار” افراد کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں، بالخصوص جب لوگ نہا دھو کر کام کاج پر جا رہے ہوں یا عمدہ قسم کی تیاری کرکے کسی فنکشن میں جا رہے ہوں، تو غریب سواری یعنی بائیک یا سائیکل والوں کے لیے یہ سفر ایک نیا چیلنج بن جاتا ہے۔ یہاں دھول اور مٹی کے طوفان سے گزر کر اپنا حلیہ بگاڑنا روز کا معمول بن چکا ہے۔

شروع کے چند دنوں تک پانی ڈال کر اس صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ ناکام رہی۔ کئی مہینے گزر چکے ہیں اور اب گزرنے والے "بے کار” افراد اس کے عادی ہو چکے ہیں، پھیپھڑے فولادی ہو گئے ہیں اور ضمیر سو چکے ہیں۔ سب نے اس "دھول اور مٹی کے فوائد” کو خوشی خوشی قبول کیا ہے۔ یہاں سب اچھا ہے کیونکہ شاید اب دھول کا کوئی "مفید” پہلو سامنے آ چکا ہے۔ اس راستے کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، کھڈے اب بھی نظر آتے ہیں اور ساتھ دھول بونس کے طور پر موجود ہے۔ "سب کچھ ٹھیک ہے” کے نعرے کے ساتھ، لوگ اب ہر روز اپنے گندے کپڑے اور بگڑے حلیے لے کر کام پر روانہ ہوتے ہیں اور واپسی پر مزید دھول پھانک کر گھروں کو پہنچ کر حکام کو کوستے ہیں۔

عوام کو یہ بات معلوم ہے کہ انتظامیہ کو دیگر بہت سے بڑے مسائل کا سامنا ہے جس پر وہ کام کر رہی ہے، لیکن ایسے مسائل کی جانب متوجہ ہونا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ دھول مٹی ہر ایک کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں، کیونکہ جہاں دو تندرست افراد دھول کو نظر انداز کر دیتے ہیں، وہیں دو چار دھول سے کسی مسئلے کا شکار ہونے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے اس راستے کو مستقل بنیادوں پر استعمال کرنے والے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔

رہے نام اللہ کا

Comments are closed.