بل نہیں دیا؟ مر جاؤ!، ریاست کے ہاتھوں ایک اور قتل
تحریر: حبیب اللہ خان
گوجرانوالہ کے چھوٹے سے علاقے ونیہ والا میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے صرف ایک خاندان کو نہیں، بلکہ پورے ریاستی نظام کو بےنقاب کر دیا ہے۔ محض 38 ہزار روپے کے بجلی کے بل کی عدم ادائیگی پر ایک محنت کش باپ کو گرفتار کر لیا گیا ، وہ بھی ایسے حالات میں جب اس کے گھر کی بجلی تین دن سے منقطع تھی اور حالات شدید غربت کی چغلی کھا رہے تھے۔ یہ کہانی انور اور اس کے بیٹے فراز کی ہے۔ بجلی کامیٹر کٹ گیا، گھر میں تاریکی چھا گئی اور اسی دوران گیپکو نے ہمسایوں سے عارضی بجلی لینے پر انور کو بجلی چوری کے الزام میں گرفتار کروا دیا۔ ریاستی مشینری نے اپنی چال چل دی مگر شاید اسے اندازہ نہ تھا کہ اس بار شکار صرف قید و بند تک محدود نہیں رہے گا۔
فراز … ایک حساس دل رکھنے والا نوجوان تھا جو والد کی گرفتاری اور گھریلو تاریکی سے اندر ہی اندر جل رہا تھا، وہ ہر ممکن کوشش کرتا رہا کہ گیپکو کے دفتر جا کر کسی حل تک پہنچے۔ لیکن جب مایوسی حد سے بڑھ گئی تو اس نے تیزاب پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ وہ زندگی جس نے شاید کبھی سکون کا سانس ہی نہ لیا ہو، اُسے ریاست کی بےحسی نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ ہم سب نے بچپن میں سنا ہے کہ "ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے”۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ماں اس طرح اپنے بھوکے بچے کو سزادیتی ہے؟ کیا ماں بجلی نہ ہونے پر اپنے بیٹے کو موت کی طرف دھکیلتی ہے؟ فراز کی خودکشی ایک عام خبر نہیں بلکہ یہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک ایسا طمانچہ ہے جس کی گونج دیرپا ہونی چاہیے۔
جب وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری بجلی چوروں کے خلاف "ریکوری مہم” پر فخر کرتے ہیں تو کیا ان سے یہ پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ کیا یہ "ریکوری” انسانی جان سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا ان کی مہم نے غربت کو جرم بنا دیا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ انور ایک محنت کش تھا، اسے جیل میں ڈالنا جائز تھا؟ اور کیا فراز کی موت کا مقدمہ اب صرف والدین کے آنسوؤں میں دفن کر دیا جائے گا یا وزیرِ توانائی کو بھی کٹہرے میں بلایا جائے گا؟ یہ محض ایک افسوسناک واقعہ نہیں، یہ اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس نے ہر قیمت پر ریکوری کا نعرہ لگا کر انسانیت کو پچھلی صف میں دھکیل دیا ہے۔ کیا اویس لغاری کی وزارت اس موت کی شریک مجرم نہیں؟ کیا ان کے اقدامات سے جنم لینے والے سانحات کا کوئی حساب نہیں ہونا چاہیے؟
آج ملک بھر میں اربوں روپے کے بل ادا نہ کرنے والے طاقتور سیاستدان، تاجر، افسران اور اشرافیہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان کے خلاف نہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے، نہ گرفتاری، نہ ذلت۔ مگر ایک محنت کش انور، جو شاید 38 ہزار کی قسط بھی مانگتا ہوگا، اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا یہی قانون ہے؟ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟ فراز کی موت ایک نوحہ ہے، ایک احتجاج ہے، ایک سائلانہ چیخ ہے ، وہ کہتا ہے "میرا جرم کیا تھا؟ کہ میں غریب تھا؟”
یہ سب کچھ ایک لمحاتی جذباتی ردعمل نہیں بلکہ ریاست کے لیے ایک آئینہ ہے جس میں وہ اپنی پالیسیوں، اپنی ترجیحات اور اپنی بےحسی کا عکس دیکھ سکتی ہے۔ گیپکو حکام کے خلاف فوری انکوائری ہونی چاہیئے اور وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اس واقعہ پر ایوان میں طلب کیا جانا چاہیے۔ وزارتِ توانائی کی "ریکوری پالیسی” کا ازسرِنو جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ ایسے تمام کیسز میں جہاں غربت کی وجہ سے بل ادا نہ کیے جا سکے، ریاستی ریلیف، اقساط یا سماجی تحفظ کی اسکیمیں متعارف کروائی جائیں۔ فراز کی خودکشی پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ ذمہ دار کون ہے . صرف بجلی چوری کرنے والا یا وہ نظام جو انسان کو جینے کا حق نہیں دیتا۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں اگر ہم نے فراز کے آنسوؤں کو نظرانداز کیا، تو شاید کل کو کسی اور کا بیٹا، کسی اور کا باپ اسی ریاستی ظلم کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ تب ہم صرف کفِ افسوس ہی ملتے رہ جائیں گے۔ کیا ہم ایک زندہ قوم ہیں؟ یا پھر ہم صرف زندہ لاشیں ہیں جو ہر دن ایک نیا ماتم سن کر تھوڑا سا افسوس کرتے ہیں اور پھر اگلے سانحے تک خاموش ہو جاتے ہیں؟ فراز چلا گیا، انور شاید رہا بھی ہو جائے، لیکن یہ سوال ہمارے دل و دماغ پر نقش ہونا چاہیے کہ کیا ہم واقعی ایک زندہ ریاست ہیں؟ اگر ہم خاموش رہے، تو یہ خاموشی صرف ایک قتل پر نہیں ہو گی ، یہ ہمارے ضمیر کے قتل پر مہرِ تصدیق ہو گی۔