آج کے دور میں، جہاں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل منظوری نے ہماری زندگیوں پر راج قائم کر لیا ہے، وہاں اصلیت اور بناوٹ کے درمیان فرق مٹتا جا رہا ہے۔ اب زندگی ایک ذاتی سفر نہیں رہی، بلکہ ایک ایسی کارکردگی بن چکی ہے جو ایک "نظر نہ آنے والے” سامعین کے لیے مسلسل پیش کی جا رہی ہے۔ فلٹر شدہ خوشیوں سے لے کر بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی بیماریوں تک، ہم ایک ایسی ثقافت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جہاں احساسات سے زیادہ ظاہری تاثر اہمیت رکھتا ہے۔
ایک وقت تھا جب ذاتی دکھ درد صرف قریبی اور مخلص لوگوں سے شیئر کیے جاتے تھے، اور خوشیاں ان کے ساتھ منائی جاتی تھیں جن کا ساتھ اصل ہوتا تھا۔ آج، زندگی کی معمولی باتیں — ہلکا سا سر درد، ایک کپ چائے، اُداس لمحہ یا زبردستی کی مسکراہٹ — سب کچھ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ہم زندگی گزار نہیں رہے، بلکہ اسے اسٹیج پر دکھا رہے ہیں —وہ بھی محض توجہ، تعریف اور تالیوں کے لیے۔
اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے لمحے کی اطلاع دوسروں کو دینا صرف عادت نہیں، بلکہ ایک اندرونی خلا کو ظاہر کرتا ہے — وہ خلا جو تسلی، اہمیت اور تسکین کی تلاش میں ہے۔ لوگ ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بیماری کا بہانہ کرتے ہیں، کامیاب دکھنے کے لیے جھوٹی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور خود کو بہتر ظاہر کرنے کے لیے جعلی طرزِ زندگی اپناتے ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جس مجمع کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے، اسے درحقیقت آپ کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں۔
چلیے سچ تسلیم کریں — لوگوں کو واقعی آپ کی زندگی کی اونچ نیچ سے کچھ خاص سروکار نہیں۔ وہ ایک لائک، ایک تبصرہ، یا ایک ایموجی ضرور دے سکتے ہیں، مگر ان کے ذہن اپنے مسائل، اپنی فکریں اور اپنی اہمیت کی تلاش میں الجھے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی کامیابی یا ناکامی پر کوئی نیند نہیں کھوتا۔ یہ تلخ حقیقت اکثر بہت دیر سے سمجھ آتی ہے — جب آپ کئی سال اپنی زندگی صرف دوسروں کو متاثر کرنے میں گزار چکے ہوتے ہیں۔
اپنی زندگی دوسروں کو اپڈیٹ کرنے کے لیے جینا ایسے ہی ہے جیسے کسی خالی ویرانے میں پکارنا — شاید آواز گونجے، لیکن کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ یہ دکھاوٹی رویہ نہ تو عزت دلاتا ہے اور نہ ہی وقار، بلکہ ترس یا مذاق کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ انسان کو ایک ایسی شخصیت میں بدل دیتا ہے جو اندر سے کھوکھلی، مگر باہر سے چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جعلی زندگی کا جذباتی بوجھ
ظاہری دکھاوے کو برقرار رکھنا آسان نہیں — یہ ذہنی سکون، اصلیت اور حقیقی تعلقات کی بھاری قیمت پر ہوتا ہے۔ ہر وقت ‘ٹھیک’ یا ‘کامیاب’ نظر آنے کی کوشش انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہے۔ جب آپ وہ بننے کی اداکاری کرتے ہیں جو آپ ہیں ہی نہیں، تو آپ کی اصل خوشیاں بھی کھوکھلی محسوس ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ، جب لوگ جذباتی کمزوری یا بیماری کو ڈرامہ بنا کر پیش کرتے ہیں، تو وہ ان لوگوں کی حقیقی تکلیف کو کم تر کرتے ہیں جو واقعی درد سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہمدردی ایک وقتی ردعمل بن کر رہ جاتی ہے — ایموجیز اور ری ایکشنز کی شکل میں۔
خاموشی اور نجی زندگی کی طاقت
خاموشی میں حکمت ہے۔ ہر بات کو شیئر کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ نجی زندگی کوئی راز نہیں بلکہ خود احترام کی علامت ہے۔ نہ ہر کامیابی تالی مانگتی ہے، نہ ہر درد ہمدردی۔ زندگی کے کچھ باب صرف اپنے لیے ہوتے ہیں — انہی میں اصل سکون پوشیدہ ہے۔بالغ سوچ یہ ہے کہ ہر کوئی آپ کی زندگی کی اسکرین پر بیٹھا تماشائی نہیں ہونا چاہیے۔ گہرائی کو اپنائیں، دکھاوے کو چھوڑیں، اور ظاہری کارکردگی کی بجائے اندرونی سکون کو اہمیت دیں۔
زندگی گزاریں، اسٹیج ڈرامہ نہ بنائیں
یہ دوسروں کو خوش کرنے کا معاملہ نہیں — اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے ساتھ سچے ہیں یا نہیں۔ خواہ وہ جھوٹی خوشی ہو، فرضی تکلیف ہو یا مصنوعی کامیابی — دکھاوا صرف آپ کو چھوٹا اور بے وقوف بناتا ہے۔جنہیں واقعی آپ کی پرواہ ہے، انہیں آپ کی زندگی کا ثبوت سوشل میڈیا پر نہیں چاہیے۔ اور جنہیں پرواہ نہیں، ان کے لیے جینا دانشمندی نہیں۔ اس لیے اسٹیج سے اتر جائیں، اور اصل زندگی گزارنا شروع کریں۔”آپ کی قدر اس بات سے طے نہیں ہوتی کہ آپ کی زندگی کو کتنے لوگ دیکھ رہے ہیں، بلکہ اس سے طے ہوتی ہے کہ آپ اسے کتنی سچائی سے گزار رہے ہیں۔”