وطن عزیز کے دلخراش حالات ،تجزیہ : شہزاد قریشی

qureshi

ان دنوں قومی سیاست کے میدان میں ہنگامہ آرائی ، افراتفری اور تشدد پسندی کا رجحان مشاہدہ کیا جا رہا ہے اس کا ایک نہایت قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ امن و امان قائم کرنے والے ایک اہم ریاستی ادارے یعنی پولیس اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان خونریز تصادم شروع ہو گیا ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز عمران خان کی گرفتاری کے لیے ان کی رہائش گاہ واقع زمان پارک تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں پنجاب و اسلام آباد پولیس اور مذکورہ کارکنوں کے درمیان جو مقابلہ ہوا اس کے حوالہ سے مذکورہ علاقہ کو میدان جنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس واقعہ کو قومی میڈیا میں تو ایک الگ انداز میں پیش اور نشر کیا گیا لیکن غیر ملکی میڈیا نے اس ضمن میں اس بات کو اہمیت اور فوقیت دی کہ حکومت کے اقدامات جمہوری روایت اور مزاج کے برعکس ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اپنی اقتصادی اور معاشی حیثیت کو مستحکم بلکہ برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کی مالیاتی اعانت کی اشد ضرورت ہے ، امن و امان کی صورت حال کا تیزی کے ساتھ ابتراوربے قابو ہونا کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ غیر ملکی میڈیا نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے وفاقی دارالحکومت ، اسلام آباد کی پولیس اور پنجاب پولیس نے مشترکہ طور پر جو کارروائی کی، وہ نہایت افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ دراصل مذکورہ غیرملکی میڈیا وطن عزیز کی سیاسی حرکیات اورریاستی اقدامات کو اپنے احوال اور معیارات کے مطابق دیکھتا ہے اور ایسے میں اس کی مایوسی نہایت درست محسوس ہوتی ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مغربی میڈیا سے مغربی پالیسی سازادارے اورشخصیات کسی حد تک ضرور متاثر ہوتے ہیں چنانچہ وطن عزیز کے دلخراش واقعات اس تناظر میں بھی نہایت غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ وقت کا اہم ترین تقاضا اب یہی ہے کہ سیاست دان اس حقیقت کا ادراک کریں کہ اگر مستقبل کی سیاست کو جمہوریت کے اندازاوررنگ میں محفوظ کرنا ہے تو اس کے لیے باہمی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ ایک عامی بھی اس بات کا اقرار اور احساس کرتا ہے کہ اس وقت اصل مسئلہ داخلی سیاسی حالات اور امن و امان کا ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر تعمیر و ترقی کے سلسلہ کا انحصار ہے۔ خود وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اس بات کا دو ٹوک الفاظ میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کو اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران جس سوال اور استفسار کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا تعلق داخلی حالات سے ہے۔ یہ بات بھی نہایت فکر انگیز اور قابل توجہ ہے کہ اب اصل معاملہ جماعتی اور سیاسی امور کا نہیں بلکہ قومی اور اجتماعی امور کا ہے ۔

Comments are closed.