پاکستان میں دل کی بڑھتی ہوئی بیماریوں، خاص طور پر نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال پر تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔

لاہور میں پاکستان ہائپرٹینشن لیگ کانفرنس میں شریک سینئر کارڈیالوجسٹس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت سے بیماریوں کی بروقت تشخیص اور علاج میں انقلاب آ رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے، خاص طور پر دل کی بیماریوں کی ابتدائی شناخت اور مؤثر علاج میں۔

اتوار کو لاہور میں کانفرنس کے دوران نوجوان ڈاکٹروں اور ریسرچرز کو ان کے تحقیقی پروپوزلز پر لاکھوں روپے کے ریسرچ گرانٹس دی گئیں۔ یہ گرانٹس فارمیوو ریسرچ فورم کی جانب سے فراہم کی گئیں تاکہ دل کی بیماریوں کی بروقت تشخیص، علاج اور بچاؤ کے لیے تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔“شارک ٹینک کارڈیالوجی” ایونٹ میں ملک بھر سے دس تحقیقی مطالعات پیش کیے گئے جن کا جائزہ سینئر ماہرین امراض قلب پروفیسر فواد فاروق (این آئی سی وی ڈی کراچی)، پروفیسر نصیر سامور (آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، راولپنڈی) اور پروفیسر فاران طیاب (کلثوم انٹرنیشنل ہسپتال، اسلام آباد) نے لیا۔ انہوں نے تین بہترین تحقیقی منصوبوں کا انتخاب کیا۔

پہلا انعام ڈاکٹر عامر شہباز (شیخ زید ہسپتال لاہور) نے حاصل کیا جنہوں نے ہارٹ اٹیک کے مریضوں میں اسٹنٹ کے بعد دی جانے والی دو دواؤں ٹکاگریلر اور ہائی ڈوز کلوپیڈوگریل کا تقابلی مطالعہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے مطالعات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے مریضوں کے بڑے ڈیٹا کا تجزیہ تیز اور زیادہ درست انداز میں ممکن ہوگا، جس سے مؤثر اور کم خرچ علاج کے انتخاب میں مدد ملے گی۔

دوسرا انعام ڈاکٹر دیپا آہوجہ (سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز، لاڑکانہ) نے جیتا جنہوں نے ریڈیل آرٹری تک رسائی کے لیے الٹراساؤنڈ گائیڈڈ کینولیشن اور روایتی طریقہ کار کا موازنہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ مربوط کر کے ریئل ٹائم گائیڈنس فراہم کی جا سکتی ہے، جس سے پیچیدگیوں میں کمی اور مریضوں کے لیے زیادہ محفوظ اور کم تکلیف دہ علاج ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

تیسری پوزیشن ڈاکٹر آمنہ جاوید ملک (فیصل مسعود ٹیچنگ ہسپتال، سرگودھا) کو ملی جنہوں نے ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں میں ایکو کارڈیوگرافی کے ذریعے دل کی پوشیدہ خرابیوں کی نشاندہی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا۔ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جدید امیجنگ کے خودکار تجزیے سے ایسے نقصانات بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں جو عام ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتے، یوں بروقت علاج ممکن ہو پاتا ہے۔

ججز نے نوجوان تحقیق کاروں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ نئی نسل کے کارڈیالوجسٹ روایتی پریکٹس سے آگے بڑھ کر تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ پروفیسر فواد فاروق نے کہا کہ نوجوان ڈاکٹروں کی یہ کاوش درست سمت میں ایک اہم قدم ہے۔

فارمیوو ریسرچ فورم کے ڈائریکٹر ڈیجیٹل ہیلتھ اینڈ اے آئی ڈاکٹر مسعود جاوید نے کہا کہ کمپنی کا مقصد صرف ادویات فروخت کرنا نہیں بلکہ پاکستان میں تحقیق کا کلچر پروان چڑھانا اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینا ہے۔ ان کے مطابق کمپنی اس سے قبل ڈاکٹروں اور طلبہ کے لیے کتب شائع کرنے، مشاعرے اور کتب میلوں کے انعقاد اور تحقیقی گرانٹس دینے جیسے اقدامات بھی کر چکی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دل کی بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور اب نوجوان بھی تیس اور چالیس سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق مصنوعی ذہانت پر مبنی حل اور مقامی تحقیق علاج اور بچاؤ کو نہ صرف زیادہ مؤثر بلکہ سستا اور قابل رسائی بھی بنا سکتے ہیں

Shares: