افغانستان میں طالبان کے قندھار گروپ، کابل حکومت اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ قندھار شوریٰ ٹی ٹی پی پر سخت کنٹرول کی حامی ہے جبکہ حقانی گروپ اور کابل حکومت اس مؤقف سے متفق نہیں۔
ذرائع کے مطابق حقانی نیٹ ورک پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اپنی اسٹریٹجک گہرائی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل کی کسی داخلی جنگ میں دیگر طالبان دھڑوں کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے۔شیخ ہیبت اللہ کے فتویٰ کے باوجود، جس میں افغان شہریوں کو ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان میں لڑنے سے منع کیا گیا تھا، ٹی ٹی پی کے زیرِ اثر علاقوں میں اس پر عمل نہیں ہوا۔ کنڑ، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا اور خوست میں ٹی ٹی پی کا عملی کنٹرول ہے جہاں وہ ٹیکس وصولی اور عدالتی نظام چلا رہی ہے۔
ٹی ٹی پی نے ازبک، افغانی اور شام سے آئے جنگجوؤں کو بھی اپنی صفوں میں شامل کر رکھا ہے اور مدرسوں کے ذریعے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف جہاد پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ کابل حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر اس نے ٹی ٹی پی کے کنٹرول کو چیلنج کیا تو ملک دوبارہ کھلی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے
ایمل ولی خان کے بطور سینیٹر انتخاب کے خلاف درخواست مسترد
جنگ بندی معاہدے کے تحت 15 فلسطینی شہدا کی لاشیں منتقل
لاہور ہائی کورٹ نے شوکت خانم ٹرسٹ کا مؤقف مسترد کر دیا
چین نے امریکہ پر اضافی محصولات ایک سال کے لیے معطل کردیے








