پھلتا پھولتا ضلع تلہ گنگ آخر کہاں کھو گیا۔؟

دوسری قسط
تحریر: شوکت علی ملک
ضلع تلہ گنگ کیساتھ جو کھلواڑ اور شہیدوں اور غازیوں کی اس دھرتی کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا اس کے مجرم حکومتِ وقت کے مقامی نمائندگان ہیں، تلہ گنگ و لاوہ میں اس وقت حکمران جماعت کے کم و بیش سات نامی گرامی نمائندے موجود ہیں، جوکہ ضلع تلہ گنگ کے وجود پر مارے جانے والے شب خون کو روک سکتے تھے، مگر انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے اس دھرتی ماں اور تلہ گنگ و لاوہ کی عوام کیساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے، جس کا ازالہ بھی اب شاید ممکن نہ ہو، تلہ گنگ ضلع کے قیام کے بعد ذاتی عناد پہ ن لیگ کے سینئر رہنما سردار منصور حیات ٹمن نے تلہ گنگ ضلع کے ڈی نوٹی فائی کی پیشن گوئی کی تھی، جوکہ کسی کی خواہش بھی ہوسکتی ہے، بَہَرحَال دلوں کے بھید تو اللّٰہ جانتا ہے، انہوں نے یہ بات آخر کیوں اور کس پراسپیکٹو میں کی تھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، اور سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر کسی کو تلہ گنگ کے ضلع بننے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا تو اقتدار کے منصب پہ بیٹھے حکمرانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کیا ان کا فرض نہیں بنتا تھا کہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پہ اٹھایا جاتا؟ مگر شاید انہوں نے اس پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کو ہی غنیمت سمجھا، کورٹ آرڈر کے باوجود تلہ گنگ کو اپنی کھوئی ہوئی شناخت نہ مل سکی، انتظامی افسران تعینات نہ ہوسکے، ضلع تلہ گنگ میں 18 محکموں کے دفاتر ان کے آفیسرز اور سٹاف تعینات کیا گیا تھا مگر بدقسمتی سے ایک ایک کرکے نہ صرف افسران اور سٹاف کی ٹرانسفرز کردئےگئے بلکہ ضلعی دفاتر کےلیے پنجاب حکومت کی جانب سے مختص کی گئی زمین کا اتا پتا بھی نہیں اور ظلم و بربریت کی انتہاء اب تو ضلعی دفاتر کے باہر لگے سائن بورڈز تک اکھیڑ دئیے گئے، مگر بھرے شہر سے کسی ایک شخص کا ضمیر بھی نہیں جاگا اور پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا کہ آخر اس دھرتی سے کس چیز کا انتقام لیا جارہا ہے۔؟
جاری ہے

Leave a reply