دویا جین، ہندی اور اردو کی معروف شاعرہ
روبرو آئنے کے روز میں آئوں کیسے
کتنا مشکل ہے نظر خود سے ملاتے رہنا
دویا جین
دویا جین 17 جولائی 1969ء کو بینا، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئیں، دویا جین، ہندی اور اردو کی شاعرہ ہیں۔ سیکنڈری میں میرٹ پانے پر انھیں جواہر لال نہرو میموریل انعام ملا۔ ڈاکٹر ہری سنگھ کور یونیورسٹی سے انہوں نے ایم ایس سی (بوٹنی) کی تعلیم گولڈ میڈل کے ساتھ پوری کی۔ ڈپارٹمنٹ آف ٹیکنالوجی سے ودیا جین کو جے آر ایف ملا اور انہوں نے 1993 میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اسپیس سائنس سے متعلق ان کے مضامین کئی رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوئے۔
بی بی سی ہندی اور اردو سروس سے بھی ان کو کئی انعامات ملے۔ ایک عرصے سے ہندی کویتا، کہانی، ڈرامے لکھ رہی ہیں ۔غزل سننے، پڑھنے اور لکھنے کا شوق لمبے عرصے سے رہاغالب اکیڈمی اورIGNU سے اردو کا کورس کیا اور اپنا شعری مجموعہ” خیاباں” کے نام سے شائع کیا-
غزل
۔۔۔۔۔
پھر زباں پہ وہی بھولا سا فسانہ آیا
یاد وہ بے خودی کا پھر سے زمانہ آیا
لیتے انگڑائی ہیں غم زخم لگے ہیں رسنے
یاد جب بھولا ہوا دوست پرانا آیا
وہ ٹھہرتا ہے کہاں لاکھ بلائے کوئی
لوٹ کے وقت کو تو تھا نہیں آنا آیا
زلف ضدی جو جبیں کو مری چھوکر گزری
ابر کو یاد کوئی وعدہ نبھانا آیا
تیری سنگ یہ دل آج جو آوارہ ہے
لوٹ کے وقت وہ بچپن کا سہانا آیا
چرچا محفل میں جو پھر آج میری تھی نکلی
ہر گلی کوچے سے پھر میرا دیوانہ آیا
کر لیا وعدہ لو پھر اس نے جو ملنے کا پھر
دیکھنا کل نیا کیا یاد بہانہ آیا
غزل
۔۔۔۔۔
راس آیا نہیں ہم کو ترا آتے رہنا
یوں ترا برسوں تلک وعدہ نبھاتے رہنا
تو نے یہ جانا نہ آداب محبت کیا ہے
ہر ملاقات پہ ملنے ترا آتے رہنا
رائیگاں ہو گیا وہ گانا ترا راگ بسنت
موسم خار میں پھولوں کو اگاتے رہنا
اک سدا تیری بھی شامل تھی ہجوم طفلاں
ہر سحر چھجے پہ مجھ کو بھی بلاتے رہنا
جانتا تو نہیں کانٹے تو مرے دل میں چبھے
پھول تیرا مری راہوں میں بچھاتے رہنا
ہے یہ بے قفل قفس پر وہ پرندہ نہ اڑا
قصۂ عشق ترا اس کو سناتے رہنا
تیرے جیسا بھی ہے اک شخص زمانے بھر میں
کب تلک مجنوں اور رانجھوں کو گناتے رہنا
راکھ جب میں نے کریدی تو کہے چنگاری
کام تم جیسوں کا ہے دنیا جلاتے رہنا
روبرو آئنے کے روز میں آؤں کیسے
کتنا مشکل ہے نظر خود سے ملاتے رہنا