امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم سر ٹونی بلیئر غزہ کے مستقبل کی نگرانی کے لیے تشکیل دیے جانے والے بین الاقوامی ادارے "بورڈ آف پیس” میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ ادارہ ٹرمپ کی زیر صدارت قائم کیا جا رہا ہے جس کا مقصد غزہ کی عبوری حکمرانی اور جنگ بندی کے بعد کے انتظامات کو دیکھنا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ یہ بورڈ ان رہنماؤں پر مشتمل ہوگا جنہیں دیگر ممالک سے بھی نامزد کیا جائے گا۔ سر ٹونی بلیئر اس کے پہلے رکن ہیں جن کا نام باقاعدہ طور پر سامنے آیا ہے۔صدر ٹرمپ نے پیر کی شب ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا جس کا بنیادی مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سال سے جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔

ٹونی بلیئر نے منصوبے کو "جنگ، دکھ اور مصیبت کے خاتمے کا بہترین موقع” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا یہ قدم اسرائیل اور فلسطین دونوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی امید ہے۔ٹونی بلیئر کا مزید کہنا تھا کہ
"صدر ٹرمپ نے ایک جرات مندانہ اور بامعنی منصوبہ پیش کیا ہے جو اگر قبول ہو جائے تو نہ صرف جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ غزہ کے عوام کو بہتر مستقبل کی طرف لے جائے گا اور اسرائیل کی سلامتی کو بھی یقینی بنائے گا۔”

غزہ کے نظم و نسق کے لیے ایک نیا عالمی اتھارٹی ماڈل تجویز کیا گیا ہے جس کی قیادت سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو دی جائے گی۔ اس منصوبے کو ’’غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی‘‘ (GITA) کا نام دیا گیا ہے اور ماہرین کے مطابق اس سے نہ صرف فلسطینی سیاسی قیادت کو پسِ منظر میں دھکیل دیا جائے گا بلکہ فیصلہ سازی کا زیادہ تر اختیار چیئرمین کے ہاتھ میں ہوگا۔گارڈین اور اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق 21 صفحات پر مشتمل مسودے میں جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو اور انتظامیہ کے لیے بین الاقوامی شخصیات کو کلیدی کردار دینے کی تجویز ہے، جبکہ فلسطینی محض ثانوی کردار ادا کریں گے۔دستاویز میں ایک الگ "غزہ سرمایہ کاری و ترقیاتی اتھارٹی” کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے، جس میں نجی و سرکاری اشتراک اور سرمایہ کاری کے نئے ماڈل متعارف کرانے کی بات کی گئی ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ’’منفعت بخش منافع‘‘ حاصل ہو سکے۔

اس منصوبے کے تحت غزہ کا نظم و نسق مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی سے الگ ہو جائے گا، جو ناقدین کے مطابق فلسطینی وحدت کے تصور کو نقصان پہنچائے گا۔مسودے میں کسی فلسطینی رہنما کا نام نہیں لیا گیا، لیکن دیگر شخصیات مثلاً مصری ارب پتی نجیب ساویریس، اپالو گلوبل مینجمنٹ کے مارک روان، اور ٹرمپ کے سابق مشیر آریہ لائٹ اسٹون کے نام بطور مثال درج ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ نام صرف ’’تصویری مقاصد‘‘ کے لیے شامل کیے گئے ہیں اور ان افراد سے اجازت نہیں لی گئی۔

GITA کا ہیڈ کوارٹر ابتدائی طور پر مصر کے علاقے العریش میں قائم کرنے کی تجویز ہے، اور اس کی قیادت 7 سے 10 رکنی کونسل کرے گی جسے سلامتی کونسل کی منظوری حاصل ہوگی۔صرف ایک فلسطینی رکن کی شمولیت کی گنجائش ہوگی، وہ بھی بزنس یا سکیورٹی پس منظر سے۔زیادہ تر اراکین بین الاقوامی شخصیات ہوں گی جنہیں انتظامی یا مالیاتی تجربہ حاصل ہو۔’’علاقائی ثقافتی جواز‘‘ کے لیے خلیجی ممالک یا مصر کی جانب سے مسلم اراکین شامل کرنے کی تجویز ہے۔یہ کونسل ’’بائنڈنگ فیصلے‘‘ کرے گی، قوانین اور اہم تعیناتیاں منظور کرے گی اور براہِ راست سلامتی کونسل کو جوابدہ ہوگی۔منصوبے کے مطابق چیئرمین (جس کے لیے ٹونی بلیئر کا نام نمایاں ہے) کو ’’سیاسی و تزویراتی سمت‘‘ طے کرنے، اسرائیل، مصر اور امریکہ کے ساتھ سفارتی و سکیورٹی معاملات نمٹانے کا اختیار ہوگا۔ حیرت انگیز طور پر اس حصے میں فلسطینی اتھارٹی کا ذکر تک موجود نہیں۔

فلسطینی ناقدین نے اس منصوبے کو ’’فلسطین کے لیے تباہی‘‘ قرار دیا ہے۔ مصطفیٰ برغوثی نے واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو میں کہا ’’ہم پہلے ہی برطانوی نوآبادیات بھگت چکے ہیں۔ اگر آپ یہاں ٹونی بلیئر کا نام لیں تو سب سے پہلے عراق جنگ یاد آتی ہے۔‘‘ذرائع کے مطابق ٹونی بلیئر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’غزہ صرف غزہ کے عوام کے لیے ہے‘‘ اور کسی بھی منصوبے میں فلسطینیوں کی بے دخلی شامل نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ عبوری اتھارٹی بالآخر فلسطینی اتھارٹی کو ہی اختیارات منتقل کرے گی تاکہ دو ریاستی حل کی راہ ہموار ہو۔

یہ منصوبہ، جسے وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل بتائی جا رہی ہے، ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی بمباری اور انسانی المیہ دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ فلسطینی حلقوں میں ٹونی بلیئر کی ساکھ کمزور ہے، اور اس منصوبے کی کامیابی فلسطینی عوام کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔

Shares: