مزید دیکھیں

مقبول

مقبوضہ کشمیر،بھارتی فوج کا پروفیسر پر تشدد،تحقیقات کا حکم،مقدمہ درج

بھارتی فوج نے جمعہ کے روز ایک یونیورسٹی پروفیسر...

کتابیں صرف لفظ نہیں یہ تہذیبوں کا آئینہ ہیں ،پرو فیسر ڈاکٹر کنول امین

لائبریری گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی کے زیر...

بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج

بلوچستان میں جاری دہشتگردی کیخلاف کراچی کی خواتین نے...

اسلام آباد میں خواجہ سرا بھی غیر محفوظ،تشدد،زیادتی

اسلام آباد میں خواجہ سرا بھی غیر محفوظ، افسوسناک...

دوہرا معیار ایک گورکھ دھندہ .تحریر :عائشہ اسحاق

یوں تو ہم پاکستان کے بیشتر مسائل سے بخوبی واقف ہیں جو اکثر زیر بحث رہتے ہیں، ان تمام مسائل اور ان کی مختلف وجوہات کے متعلق گفتگو کرنا اپنے اور اپنی نسلوں کے انجام سے بے خبر عوام کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی جڑ دوہرا معیار ہے، اس دوہرے معیاری نظام کی وجہ سے پاکستان مسلسل بدحالی اور غربت کا شکار ہے۔اصل میں دوہرا معیار ی نظام ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں ایک غریب کا بچہ ساری زندگی امیر کے بچے کی جیسی زندگی حاصل کرنے کے لیے کوشش میں لگا رہتا ہے مگر وہ مقام پر نہیں پہنچ سکتا جہاں امیر کا بچہ پیدائشی طور پر ہی مزے اڑا رہا ہوتا ہے اسی طرح زندگی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھک کر غریب اپنی زندگی تمام کر بیٹھتے ہیں مگر کبھی بھی وہ ترقی وہ آسائشات حاصل نہیں کر پاتے جو انہیں دور کہیں دکھائی دیتی ہیں، غریب لوگ صرف کامیابی ترقی دولت آسائشات ایک دھندلے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں مگر ان تک کبھی پہنچ نہیں سکتے۔یہ کوئی تقدیر کا لکھا ہوا عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک انسانی گھناؤنا جال ہے۔دوہرا معیار ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت ملک میں دو گروہ قائم ہیں پہلا گروہ وہ ایلیٹ کلاس طبقہ ہے جس میں سیاستدان, بیوروکریٹس, بڑے بڑے سرمایہ دار, جاگیردار, زمیندار اور اعلی افسران شامل ہیں۔ دوسرا گروہ عوام کا ہے جس میں مڈل کلاس یعنی درمیانے درجے کے لوگ جو اپنا گزر بسر کسی نہ کسی طرح کچھ بہتر انداز میں چلا رہے ہوتے ہیں اس کے بعد نہایت غریب لوگ آتے ہیں جنہیں پہننے کے لیے کپڑا رہنے کے لیے چھت تو دور کی بات ہے کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ہوئی میسر نہیں ہوتی یہ وہ بد قسمت طبقہ جن کی زندگی جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہے ساری زندگی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لیے ترستے ترستے آخر کار فانی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ہزاروں خوابوں اور امیدوں سے بھری آنکھیں کسی روز بے نور ہو جاتی ہیں۔

حقیقت کچھ اس طرح سے ہے کہ پہلا گروہ یعنی ایلیٹ کلاس سارا کھیل عام مڈل کلاس اور غریب عوام کے ذریعے ہی کھیلتا ہے سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایلیٹ کلاس ہی عام عوام کے تمام حقوق پر قابض ہے یہ نہایت منظم طبقہ ہے جو اپنی طاقت کا پرزور استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ نہایت ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ مڈل کلاس اور غریب عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے ان کے تمام تر حقوق اور وسائل کو ہڑپ کر جاتا ہے اور یہی چیز انہیں مزید دولت مند اور طاقتور بنا رہی ہے۔جس طرح ایک شکاری بخوبی جانتا ہے کہ اسے اپنا مطلوب شکار پھانسنے کی خاطر جال کس طرح بچھانا ہے اور اس میں شکار پکڑنے کے لیے دانہ کس طرح ڈالنا ہے اسی طرح یہ ایلیٹ کلاس طبقہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ عوام کو کس طرح اپنے ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرنا ہے ۔تمام تر قوانین پالیسیاں اور ایکٹ یہ با اثر طبقہ اپنے ذاتی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی بناتا ہے جس سے غریب عوام کا کوئی فائدہ نہیں۔واضح الفاظ میں بات کی جائے تو ان لوگوں کی نظر میں عام غریب عوام احمق غلاموں اور کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کس طرح سے عام عوام کا استعمال کرتے ہیں، یوں تو غیر منصفانہ اور انسانی حقوق کی پامالی کی داستانیں بہت طویل اور قصے بے شمار ہیں مگر یہاں کچھ ایسی مثالیں ہیں جو واضح کر سکتی ہیں کہ یہ الیٹ کلاس طبقہ کس طرح سے عوام کو بے وقوف بنانے میں سرگرم ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عوام جن میں اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے یہ پولیٹیکل اور ایلیٹ سادہ عوام کو ایسے سنہرے خواب دکھاتے ہیں کہ آپ اور آپ کی نسلیں سنور جائیں گی،آپ بہت خوشحال ہو جائیں گے ملک کی تقدیر بدل جائے گی، وغیرہ وغیرہ جب کہ حقیقت میں وہ تمام پالیسیاں اور منصوبے ان لوگوں کے ذاتی فائدے کی خاطر ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر آج سے غالبا 22 سال پہلے جنرل مشرف نے کہا کہ گوادر پورٹ پاکستان کی قسمت بدل کر رکھ دے گا ہمارا ملک دبئی بن جائے گا ایسا سننا ہی تھا کہ پاکستانیوں نے خوشی میں جھومتے ہوئے رییل اسٹیٹ میں انویسٹمنٹ کرنا شروع کر دیا پورا ملک پھولے نہ سما رہا تھا۔ لیکن ہوا کیا ہے کیا اج وہاں پر گوادر پورٹ تو موجود ہے ہوٹل موجود ہیں مگر وہ معاشی معجزہ کہیں نظر نہیں آیا جس کا خواب عوام کو دکھایا گیا تھا ،عام عوام کی حالت کل بھی خستہ تھی اور آج بھی ویسی ہی ہے۔ اسی طرح 2014 میں سی پیک کا اعلان کیا گیا جس کو پاکستان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ گیم چینجر ثابت ہوگا اس کی بیس پر چائنا نے کافی انویسٹمنٹ کی مگر اس انویسٹمنٹ کا کوئی رزلٹ پاکستانی عوام تک نہیں پہنچ سکا، گیم چینج تو بالکل نہ ہوا البتہ چائنہ کا قرض عوام پر ضرور پڑھتا چلا گیا۔شروع میں دکھائے جانے والے سنہرے خواب عوام کے لیے ڈراؤنے خواب بن جاتے ہیں اور ان کا اصل فائدہ اور مزہ پولیٹیکل اور ایلیٹ کلاس طبقہ ہی لیتا ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں غریب عوام کے نام پر جو قرض آئی ایم ایف سے لیا جاتا ہے وہ پیسہ بھی ایلیٹ کلاس اپنے لائف سٹائل کو مزید بہتر بنانے میں ہی اڑاتے ہیں اور جو بچ جاتا ہے اسے ڈبل پرافٹ والی سکیمو ں میں لگا دیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ عوام کی فلاح و بہبود پر استعمال کیا جائے وہ پیسہ بھی انہی لوگوں کی لگژری لائف کو مزید لگژری بنانے کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے پاکستان مزید قرض اٹھاتا ہے یعنی قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض اٹھانے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح بڑھ جاتی ہے اور عوام پر مزید اضافی ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ پورا پیسہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بعد عوام کو مہنگائی اور بے جا ٹیکس کا تحفہ دیا جاتا ہے۔پاکستان 40 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں دیتا ہے تو ایسے میں فلاح و بہبود کیسے ہو سکتی ہے قرض دینے والے اور قرض لینے والے دونوں ہی پیسوں کے مزے اڑاتے ہیں اور عوام کو ایوانوں میں کھڑے ہو کر نعرے لگا لگا کر بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ ملک کو اسلام کا قلعہ بنا دو سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ ایوانوں کی تقریریں آج بھی سن لیں وہی جوش ولولہ اور سنسنی نظر اتی ہے کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا مگر کچھ بھی بہتر نہیں ہوتا ہے۔

عوام کی بے وقوفی، غفلت اور بزدلانہ سوچ کی وجہ سے یہ طبقہ بوتل سے آزاد ہوئے جن کی مانند کھلے عام قانون کی خلاف ورزی اور حقوق کی پامالی ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے۔گویا انہیں اس بات پر یقین ہو چکا ہے کہ ان کیڑے مکوڑوں اور غلاموں میں سے کوئی ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ کوئی عام شہری ٹریفک قوانین کی معمولی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں بھاری چالان اور شدید خواری کا سامنا کرتا ہے جبکہ ایک ایسا واقعہ جو 19 اگست 2024 کو کراچی میں پیش ایا جس میں ایک بڑے صنعت کار کی بیٹی اور چیئرمین گل احمد انرجی لیمٹڈ دانش اقبال کی بیوی نتاشا دانش نشے میں ڈرائیو کرتے ہوئے باپ بیٹی کو موقع پر کچل ڈالتی ہے عوام کہ گھیرنے پرسیکورٹی اہلکار ایک قاتل عورت کی حفاظت کے لیے فورا موقع پر پہنچ جاتے ہیں یہ ایلیٹ کلاس کے نہایت منظم ہونے کا بھی ثبوت ہے۔نتیجہ کیا چند دنوں بعد وہ عورت وکٹری کا نشان بناتے ہوئے رہا ہو جاتی ہے جو غریب عوام کے منہ پر طمانچہ ہے۔یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ایسے اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جو اس نظام کو ننگا کرتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے لیے جب چاہے جیسے چاہے قوانین قائم کر لیتا ہے ،

طبقاتی فرق ملک کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہے۔ جس میں غریب غربت کی دلدل سے کبھی باہر نہیں ا سکتا لیکن جس طرح کوئی تالا چابی کے بغیر نہیں بنتا اسی طرح کوئی مسئلہ بھی ہلکے بغیر نہیں ہوتا ہے حل جاننے کے لیے مسئلے کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے جو کہ غریب عوام سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتی۔ ایلیٹ کلاس لوگ جو تعداد میں کم ہے اور ہم عوام تعداد میں بہت زیادہ ہیں مگر یہ لوگ عوام کی سوچ پر قابو پا لیتے ہیں عوام کی اکثریت یہی بات سوچتی رہتی ہے کہ پاکستان کا تو کچھ نہیں ہو سکتا ہے کچھ نہیں ہوگا ،دراصل یہ مایوسی میری سوچ ہے عوام کے ذہن میں آتی نہیں ہے بلکہ ڈالی جاتی ہے ایلیٹ کلاس تمام تر قوانین کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا بخوبی جانتے ہیں جب بھی کوئی ان کے نظام کے خلاف آگاہی یا مہم چلانے کی کوشش کرتا ہے یہ طبقہ فورا حرکت میں آ جاتا ہے اور ایسی تحریکوں کو دبا دیا جاتاہے، عام عوام کا دماغ فورا تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ عوام سے گزارش ہے کہ اپنے حقوق کو حاصل کرنا سیکھیں آپ بھی منظم ہوں، اتحاد بنائیں اور کسی کے پٹواری یا کسی کے جیا لے بننے سے گریز کریں اپنی بقا کی جنگ لڑیں، یاد رکھیں یہ وہ طبقہ ہے جو آپ کو کبھی نہیں اٹھنے دے گا کیونکہ ان کا مفاد آپ کی غربت سے جڑا ہے ۔آپ نے ان سے اپنے حقوق خود حاصل کرنے ہیں۔یہ بدحالی یہ بدقسمتی کوئی تقدیر کا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ نہایت ہوشیاری کے ساتھ آپ پر مسلط کی گئی ہے اور آپ کو ایک ایسے شکنجے میں جکڑ لیا گیا ہے جہاں سے نکلنے کے لیے آپ کو متحد اور باہمت ہونا پڑے گا۔ اگر آپ بھی متحد ہو جائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب آپ ان کے چنگل سے آزاد ہو جائیں گے۔