ڈاکٹرغلام علی یاسر کا یوم پیدائش

0
66

ہمیں لکھنا ہے زمیں والوں کے غم کا نوحہ
آسمانوں سے کسی روز قلم اتریں گے

ڈاکٹرغلام علی_یاسر 13؍دسمبر 1976ء کو گوجرانوالہ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حبیب حیدر تھا۔ انہوں نے عمر کے ابتدائی سولہ سال گوجرانوالہ میں ہی گذارے اور وہ 1994ء میں اسلام آباد چلے گئے۔ علی یاسر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی اور پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو ادب میں ایم فل اور پھر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

علی یاسر نے 1990ء میں شاعری کا آغاز کیا اور ابتدا میں اپنے دادا امیر علی ساتھی سے اصلاح لی۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں بھی اردو کے حوالوں سے جاری رہیں اور یوں ان کا ادبی ذوق اور مہارت بڑھتی رہی۔ انہوں نے ادبی حلقوں میں اپنی مضبوط پہچان اور جدا رنگ قائم کیا۔ علی یاسر نے ادب کی سرپرستی کے لیے قائم حکومتی ادارے اکادمی ادبیات میں ملازمت اختیار کی اور یوں نہ صرف ملک بھر کے ادبی حلقوں سے وابستہ ہو گئے بلکہ شعر و ادب کی خدمت کا بیڑا بھی اٹھایا۔

وہ اکادمی ادبیات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر مامور رہے۔شاعری میں اپنی پہچان رکھنے والے علی یاسر میڈیا سے بھی وابستہ رہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام میں شریک بھی ہوتے اور میزبانی بھی کرتے رہے۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور علامہ اقبال یونیورسٹی ایف ایم ریڈیو پر کئی پروگرامز کے میزبان رہے۔

انہوں نے پی ٹی وی کے لیے بہت سی دستاویزی فلمیں، اسکرپٹس اور نغمے لکھے۔ بطور مترجم انہوں نے انگریزی اور پنجابی سے اردو میں تراجم کیے جن میں ”چین کی محبت کی نظمیں“ اور ”نوبل لیکچر“ وغیرہ شامل ہیں۔ علی یاسر علامہ اقبالؔ یونیورسٹی سے جُز وقتی استاد کے طور پر بھی وابستہ تھے۔

علی یاسر تواتر سے مشاعروں میں شریک ہوتے تھے اور مشاعروں کی نظامت بھی کرتے تھے۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ادبی محافل اور مشاعروں میں شرکت کے علاوہ دبئی، ابو ظہبی اور نئی دہلی میں مشاعروں میں بھی شریک ہو ئے۔ ”ارادہ“ کے نام سے علی یاسر کی غزلوں کا مجموعہ 2007ء میں منظر عام پر آیا جبکہ 2016ء میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ”غزل بتائے گی“ کے عنوان سے شائع ہوا۔

علی یاسر نے 2008ء اور 2010ء میں اہلِ قلم ڈائری کو مرتب کیا۔ ”کلیاتِ منظور عارف“ اور ”اردو غزل میں تصورِ فنا و بقا“ کے عنوانات سے کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ وہ اپنی نعتیں اور نیا مجموعہء غزل بھی مرتب کرنے میں منہمک تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی۔

ڈاکٹر علی یاسرؔ 17؍فروری 2020ء کو برین ہیمرج کے سبب اسلام آباد میں وفات پا گئے اور اپنے آبائی علاقے راہوالی ( گوجرانوالہ) میں مدفون ہوئے۔

کچھ اس طرح وہ دعا و سلام کر کے گیا
مری طرف ہی رخ انتقام کر کے گیا

جہاں میں آیا تھا انساں محبتیں کرنے
جو کام کرنا نہیں تھا وہ کام کر کے گیا

اسیر ہوتے گئے بادل نا خواستہ لوگ
غلام کرنا تھا اس نے غلام کر کے گیا

جو درد سوئے ہوئے تھے وہ ہو گئے بیدار
یہ معجزہ بھی مرا خوش خرام کر کے گیا

ہے زندگی بھی وہی جو ہو دوسروں کے لئے
وہ محترم ہوا جو احترام کر کے گیا

یہ سرزمیں ہے جلال و جمال و عظمت کی
ہے خوش نصیب یہاں جو قیام کر کے گیا

ہے کون شاعر خوش فکر کون ہے فن کار
غزل بتائے گی اس میں نام کر کے گیا

اثر ہوا نہ ہوا بزم پر علی یاسرؔ
کلام کرنا تھا میں نے کلام کر کے گیا

دور کرنے کو تری زلف کا خم اتریں گے
آسمانوں کے ستارے کوئی دم اتریں گے

حوصلہ اور ذرا حوصلہ اے سنگ بدست
وقت آئے گا تو خود شاخ سے ہم اتریں گے

ایک امید پہ تعمیر کیا ہے گھر کو
اس کے آنگن میں کبھی تیرے قدم اتریں گے

ہمیں لکھنا ہے زمیں والوں کے غم کا نوحہ
آسمانوں سے کسی روز قلم اتریں گے

اتنی آہیں نہ بھرو اشک نہ سارے بہہ جائیں
طبع نازک پہ ابھی اور بھی غم اتریں گے

جیسے ہم آنکھ ملا کر ترے دل میں آئے
لوگ اس زینۂ دشوار سے کم اتریں گے

شاد و شاداب اسی وقت رہوں گا یاسرؔ
سر قرطاس جب اشعار کے یم اتریں گے

ہے روشنی مرا عزم و یقیں چلا آیا
ستارہ ہوں میں برائے زمیں چلا آیا

میں سب سے قیمتی خلقت خدائے قدرت کی
مرا جواز ہے یوں ہی نہیں چلا آیا

ہے میری آہ مرے قہقہوں کی آہٹ میں
عزائے زیست میں خندہ جبیں چلا آیا

بساط دامن صد چاک تیری قسمت ہے
ترے وصال کو ایسا نگیں چلا آیا

عجب غضب ہے کہ دل ڈھونڈنے لگا خود کو
ادھر جو آج وہی دل نشیں چلا آیا

زمیں سے دادرسی کی امید ٹوٹ چکی
سو نالہ جانب عرش بریں چلا آیا

خیال تھا کہ مرے دوستوں کی محفل ہے
سو دوستو یہ ہوا میں یہیں چلا آیا

ہر ایک وقت ہے اس کا ہر ایک سر کومل
غزل میں بن کے وہ اک بھیرویں چلا آیا

یہ کہہ کے گور بھی مجھ پر کشادہ ہونے لگی
خوش آمدید کہ میرا مکیں چلا آیا

اب احتیاط سے مطلب نہیں علی یاسرؔ
کہ سامنے وہ مرا نکتہ چیں چلا آیا

Leave a reply