ڈاکٹر من موہن سنگھ، ایک عظیم رہنما کی بے توقیری یا روایات کی خلاف ورزی؟
ڈاکٹر من موہن سنگھ، ایک عظیم رہنما کی بے توقیری یا روایات کی خلاف ورزی؟
تحریر: شاہد نسیم چوہدری
ڈاکٹر من موہن سنگھ بھارت کے سابق وزیر اعظم، ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی دیانت داری، علمی قابلیت، اور ملک کے لیے بے شمار خدمات سے ہمیشہ کے لیے یاد گار چھوڑی۔ وہ بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم تھے اور 2004 سے 2014 تک کے اپنے دس سالہ اقتدار کے دوران ملک کو اقتصادی ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی کو نگم بودھ گھاٹ لے جایا گیا، جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ تاہم، ان کی آخری رسومات راج گھاٹ پر نہ ہونے کا فیصلہ ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے، جس پر اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے اسے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بے توقیری قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک ماہر اقتصادیات تھے اور بھارت کی معیشت کے 1991 میں شروع ہونے والی اصلاحات کے معمار کے طور پر ان کا کردار اہم رہا۔ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے عالمی سطح پر بھارت کے وقار میں اضافہ کیا اور داخلی طور پر متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ ان کی سادگی، شرافت اور سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کا جذبہ انہیں بھارت کی سیاست میں ایک منفرد مقام فراہم کرتا ہے۔
راج گھاٹ بھارت کا ایک تاریخی مقام ہے جہاں مہاتما گاندھی کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ یہ جگہ بھارت کے عظیم رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے مخصوص ہے اور یہاں جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور دیگر اہم شخصیات کی آخری رسومات بھی منعقد کی گئیں۔ اس مقام کی علامتی حیثیت اسے بھارت کی قومی یکجہتی اور عظیم رہنماؤں کی خدمات کی یادگار بنا دیتی ہے۔
نگم بودھ گھاٹ دہلی کا ایک روایتی شمشان گھاٹ ہے جہاں عام طور پر آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ یہ مقام دہلی کے عوام کے لیے عام حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کی قومی سطح پر وہ علامتی حیثیت نہیں ہے جو راج گھاٹ کی ہے۔ یہاں عوام کو رسائی ہوتی ہے اور سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود اس میں راج گھاٹ کے مقابلے میں عوامی شمولیت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسومات کا نگم بودھ گھاٹ پر ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس فیصلے کو کچھ حلقوں نے سکھوں سے تعصب قرار دیا، جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ تھا۔ راہل گاندھی نے اس فیصلے کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بے توقیری قرار دیا اور کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم کی خدمات کو نظر انداز کرنا بھارت کی روایات کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے اس فیصلے کو انتظامی چیلنجز اور موجودہ حالات کے تناظر میں لیا گیا فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ راج گھاٹ پر انتظامات ممکن نہیں تھے، اس لیے نگم بودھ گھاٹ کا انتخاب کیا گیا۔
اس فیصلے پر عوامی حلقوں میں شدید ردعمل آیا ہے، اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ معاملہ صرف ایک شخصیت کی آخری رسومات کا نہیں، بلکہ اس کا تعلق بھارت کی سیاست، اخلاقیات اور قومی وقار سے بھی ہے۔ اگر قومی رہنماؤں کو ان کے مقام کے مطابق عزت نہ دی جائے، تو یہ بھارت کی جمہوریت کے لیے ایک خطرناک رجحان ہو سکتا ہے۔
اس واقعے نے بھارت کی سیاست میں موجود تعصبات کو بے نقاب کیا ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے رہنماؤں کو قومی مفاد کے بجائے جماعتی تعصب کی نظر سے دیکھتی ہیں؟ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام قومی رہنماؤں کو مساوی عزت دے، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں۔ راج گھاٹ جیسی روایات کا تحفظ قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے۔ اگر ان روایات کو توڑا جائے تو اس سے بھارت کے سماجی اور سیاسی تانے بانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسومات کا معاملہ ایک علامتی تنازعہ ہے، جو بھارت کی سیاست اور سماج میں موجود گہرے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت اپنی روایات اور اقدار کو دوبارہ زندہ کرے اور اپنے عظیم رہنماؤں کو ان کے شایان شان مقام دے۔ راج گھاٹ اور نگم بودھ گھاٹ کے فرق کو سمجھتے ہوئے، قومی رہنماؤں کو ان کی خدمات کے مطابق عزت دینا بھارت کی جمہوری اقدار کے لیے ناگزیر ہے۔