اسلام آباد (رضی طاہر سے) تحریک منہاج القرآن کے بانی و چیئرمین ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ملکی قومی سیاست سے ہمیشہ کیلئے دستبرداری کا اعلان کردیا، پارلیمانی سیاست سے وہ پہلے ہی آؤٹ تھے جبکہ ایک زبردست پریشر گروپ کی حیثیت سے ان کی جماعت کا رعب و دبدبہ قائم تھا، نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے گزشتہ 10سالوں میں انہوں نے بے شمار جلسے اور دو بڑے دھرنے دیئے، پہلا دھرنا 2013میں 4دن پر محیط تھا، جبکہ دوسرا دھرنا2014میں تقریبا70دنوں پر محیط رہا، جس میں ان کے ہم سفر موجودہ وزیراعظم عمران خان تھے، حالانکہ عمران خان 120دن بیٹھے رہے مگر دھرنے کی اصل رونق ڈاکٹر طاہرالقادری کے قافلے کے جانے کے بعد مانند پڑگئی تھی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی سیاست کا آغاز 90کی دہائی میں شروع کیا، انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد مئی1989میں رکھی،قیام کے اگلے ہی سال 1990میں انتخابی سیاست میں حصہ لیا، 90کی دہائی میں یہ ان کا پہلا اور آخری الیکشن رہا، 1993کے انتخابات سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اس کے بعد 1996میں سرگرم ہوئے اور بے نظیر کے حکومت کے خاتمے کے بعد عوامی اتحاد قائم کیا، جس میں ملک کی نامور سیاسی جماعتیں شامل تھیں، اتفاق کی بات ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری 1999میں بھی گونواز گو تحریک میں سرگرم عمل رہے، نواز شریف کی حکومت گرائے جانے کے بعد مشرف کے احتساب ایجنڈے کو سپورٹ کرتے ہوئے مشرف کے ساتھی بن گئے، 2002میں ایک مرتبہ پھر انتخابی سیاست میں بھرپور حصہ لیامگر محض اپنی ہی سیٹ حاصل کر پائے، ابتداء میں مشرف کے ساتھی رہے میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی پالیسیوں کے مخالف ہوگئے اور مشرف کے دوہرا عہدہ رکھنے کیخلاف اسمبلی کے فلور میں احتجاج کرتے رہے،2سالہ قومی اسمبلی کے سفر میں ان کی مصروفیات خاص نہیں رہیں، پارلیمانی سیاست سے دور ہی رہے اور2004میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دیدیا۔
انتخابات2008میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاتعلقی کا اعلان کیا، اور اسی سال کے آخر میں 5سال کیلئے ملک سے باہر چلے گئے، کینیڈا میں ہی قیام کے دوران تحریک بیداری شعور کاآغاز کیا اور موجودہ انتخابی نظام کے خلاف جدوجہد شروع کی، 2011میں لیاقت باغ جلسے سے مہم کا دائرہ کار بڑھایا اور5سال بعد دسمبر2012میں ملک واپس آئے، مینار پاکستان میں ان کاعوامی استقبال کیا گیا، جہاں انہوں نے اسلام آباد مارچ کا اعلان کرتے ہوئے نظام کے خلاف تحریک کے اگلے مرحلے کا اعلان کیا، 2013کے پہلے مہینے کے دوسرے ہفتے میں ہی انہوں نے اسلام آباد پڑاو ڈالا، 4دن ہزاروں کارکنان کے ہمراہ دھرنا دیا اور بالاخر حکومت وقت سے انتخابی اصلاحات اور نظام کی تبدیلی کا معائدہ کرکے واپس لوٹ آئے، انتخابات2013کا بائیکاٹ کیا، الیکشن ڈے دھرنے دئیے، مئی2014میں بیرون ملک سے ہی ملک کے20سے زائد شہروں میں ہزاروں کارکنان سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے عوامی انقلاب مارچ کا اعلان کیا، تاریخ کا اعلان نہیں کیامگر عوامی رابطہ مہم شروع کردی،17جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا، جس کے بعد22جون2014کو ڈاکٹر طاہرالقادری لندن سے پاکستان آئے، ان کی فلائٹ کو اسلام آباد اترنا تھا جہاں ان کے کارکنان جمع تھے مگر اس کا رخ لاہور موڑ دیا گیا، ڈاکٹر طاہرالقادری احتجاجا 5گھنٹے جہاز سے نہیں اترے اور اسلام آباد جہاز لے جانے کا مطالبہ کیا، تاہم گورنر پنجاب چوہدری سرور کی مداخلت پر لاہور اترے اور ماڈل ٹاؤن سانحے کے 100سے زائد زخمی کارکنان کی عیادت کیلئے جناح ہسپتال چلے گئے، اگست کی8تاریخ کو ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والے افراد کیلئے دعا و قل کا اعلان کیا، اسی تقریب کے دوران 14اگست کو انقلاب مارچ کا اعلان کیا، دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی آزادی مارچ کا اعلان کرچکے تھے، دونوں جماعتیں اپنے مقررہ شیڈول کے مطابق لاہور سے نکلیں اور براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد آئیں اور پڑاؤ پہلے آبپارہ میں ڈالا بعدازاں رکاوٹیں توڑتے ہوئے ڈی چوک پہنچے، انہی دنوں ان پر اور ان کے کارکنان پر مقدمات بنے جن میں پی ٹی وی حملہ کیس بھی ہے جو ابھی تک زیرالتواء ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنا قیام اسلام آباد میں اکتوبرکی22تاریخ تک رکھا اور محض سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کا مطالبہ منوا کر دھرنے کو ملتوی کردیا، اس کے بعد کچھ عرصہ پاکستان میں جلسے کرتے رہے۔
انتخابات2018سے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کسی جماعت کی حمایت نہ کی، حتی کہ الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے بھی خلاف بیان جاری کیا جس میں متنبہ کیا کہ ایسے تبدیلی نہیں آئے گی، مسلسل اتار چڑھاؤ میں رہنے والا ڈاکٹر طاہرالقادری کا سیاسی سفر 14ستمبر2019کو ختم ہوا، جس کا باقاعدہ اعلان پریس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے خود کیا، اپنے اس سفر کے دوران وہ مسلسل نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے میں شاید تاریخ انہیں پاکستان کے مروجہ سیاسی نظام میں ایک ناکام سیاسی رہنما کے طور پر، مگر نظام کے باغیوں میں صف اول کے رہنما کے طورپر یاد کرے گی، پاکستان عوامی تحریک کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے، ان کے بغیر عوامی تحریک کا بیڑہ کون اٹھائے گا اور کیا یہ سیاسی جماعت رہے گی بھی یا نہیں یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا۔