ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری یکم جولائی 1903ء کو مشرقی پاکستان کے ضلع روہتک کے ایک گاؤں کہنور میں پیدا ہوئے ۔
ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری وائسرائے روفس آئزکس کے وظیفے پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں زیر تعلیم رہے ۔ یہیں سے Msc فزکس میں ٹوپ کیا اور باقی تمام سائنسی مضامین میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر طلائی تمغے حاصل کیے ۔ڈاکٹر صاحب کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر بھوپال کے نواب حمیداللہ خان نے انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ بھیج دیا ، وہیں کیونڈش لیبارٹری میں” ماہر طبیعات مارک اولیفانٹ” نے نیوکلیئر فزکس کی طرف مائل کیا ۔ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے 1932ء میں” کیمسٹری میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان ارنسٹ ردرفورڈ "کی نگرانی میں نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ کیونڈش کا یہ ایک شاندار دور تھا کیونکہ وہاں اس دوران ایٹم اور نیوکلیئرفزکس میں بہت پیش رفت ہوئی ۔ کیونڈش لیبارٹری میں اس وقت سر جے جے تھامسن ، لارڈ ردرفورڈ ، آسٹن ولسن ، کک روفٹ والٹن اور سر جیمز چیڈ ویک جیسے سائنسدان کام کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ کیونڈش کے سنہری دور میں” ردرفورڈ” کے طالب علم ر ہے ۔
تیس سال کی عمر میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری برطانوی ہندوستان واپس آئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں فزکس کی تعلیم دینے لگے ۔ 1935ء سے 1938ء تک وہ یہیں شعبہ فزکس کے چیئرمین بھی رہے ۔1938ء میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری شعبہ طبیعات کے سربراہ کی حیثیت سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تشریف لے گئے جہاں” اولیفانٹ” کی دعوت پر دوبارہ برمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں بطور نوفلیڈ فیلو کام کرنے کے لئے برطانیہ چلے گئے ۔برطانوی میگزین "ڈاروینین”کے مطابق 1947ء میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری برمنگھم میں "اولیفانٹ” کی لیبارٹری میں ایک سال گزارنے کے بعد کہنور واپس آ گئے ۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد "اولیفانٹ” نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے نوزائیدہ ملک میں سائنس ، خصوصاََ ایٹمی اور نیوکلیئر فزکس کی تدریس و تحقیق کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا ، اور لکھا کہ "اس پروگرام کے کامیاب اطلاق کے لئے پورے برصغیر میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری سے بہتر کوئی مسلمان سائنسدان نہیں ہے اور انہیں فوری طور پر پاکستان بلانے پر زور دیا ۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے "اولیفانٹ” کے کہنے پر ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو خط لکھ کر پاکستان آنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ فزکس کی سربراہی کی پیش کش کی ۔بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو نیشنل فزکس لیبارٹری میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی پیشکش کردی ، لیکن ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ، اور1948ء میں حکومت پاکستان کے دعوت نامے پر اپنے خاندان سمیت پاکستان آگئے ، اور گورنمنٹ کالج لاہور جوائن کر کے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے استعفیٰ دے دیا ۔
پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں کی پہلی دہائی کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تین طبیعیات دان ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری ، نذیر احمد اور ڈاکٹر عبدالسلام پر مشتمل ہے ۔1954ء میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے جوہری تحقیق کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فزکس میں” ہائی ٹینشن لیبارٹری "کی بنیاد رکھی ۔”ہائی ٹینشن لیبارٹری "میں ایک ایٹم ایکسلریٹر لگایا گیا ہے ، جس میں اعلیٰ سطح پر تحقیق ممکن ہوئی۔ہائی ٹینشن لیبارٹری بہت تیزی سے بین الاقوامی سطح پر جانی پہچانی جانے لگی ، جب غیر ملکی سائنسدان پاکستان کے دورے پر آتے تو اس لیبارٹری کو دیکھنے کی خواہش ضرور کرتے ۔1958ء میں پرنس فلپ نے اس لیبارٹری کا دورہ کیا اور بیس سے زیادہ تجربات کا مشاہدہ کیا ،اور کہا کہ "یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں کیونڈش کی طرح کا ماحول ہے ۔””ہائی ٹینشن لیبارٹری "کا نام بعد میں تبدیل کر کے "سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز ان فزکس”رکھ دیا گیا ۔ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے نیوکلیئر پارٹیکل ایکسلریٹر کی تنصیب میں اہم کردار ادا کیا ، 1967ء میں انہوں نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم تشکیل دی جس نے کامیابی سے” ریڈیو آئسو ٹوپس”کی پہلی کھیپ تیار کی ۔اس لیبارٹری سے تربیت حاصل کرنے والے طلباء پاکستان اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔Msc فزکس کے طلباء تقریباً بیس سے تیس کی تعداد میں جوہری فزکس میں تحقیقی کام کرنے کے لئے لیبارٹری آتے ۔ تمام طلباء کو پروجیکٹ دئیے جاتے ، جن کی نگرانی ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کرتے ۔تحقیقی کام کرنے والے طلباء نے یونیورسٹیز اور راولپنڈی کے قریب نئے بننے والے "پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی”میں پوزیشنیں سنبھال لیں ۔ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم تیار کی جو اب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی قیادت کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو سائنس میں "استادوں کے استاد”کا خطاب ملا ۔خوارزمی سوسائٹی اور انٹرا ایکٹ کے زیرِ اہتمام 30نومبر 1998ء کو اپنے لیکچر میں ڈاکٹر ثمر مبارک مندنے انہیں "پاکستانی ایٹمی پروگرام کا حقیقی خالق” قرار دیا ۔
1958ء میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری 55سال کی عمر میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہو گئے ، اور اس کے بعد” ہائی ٹینشن” اور” نیوکلیئر ریسرچ لیبارٹری” کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری "تجرباتی نیوکلیئر فزکس” کے سر خیل بنے اور اپنے شاگرد مصطفیٰ یار خان کے ساتھ مل کر پاکستان کے کامیاب "نیوکلیئر پروگرام "کی بنیاد رکھی ۔1970ء کے اوائل میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے پنجاب یونیورسٹی کے "سنٹر فار سالڈ سٹیٹ فزکس”کو اپنا مسکن بنا لیا ، اور یہاں پر انہوں نے” پلازما فزکس” کی نئی ریسرچ لیبارٹری قائم کی ۔اس لیبارٹری میں انہوں نے یونیورسٹی کے متعدد طلباء کو Msc اور M phill کے لئے تربیت دی ۔ اس کام سے متعلق بڑی تعداد میں مقالہ جات اور تحریریں شائع کروائی گئیں ۔ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کی پنجاب یونیورسٹی سے وابستگی شروع ہی سے تھی ۔1960ء سے 1977ء تک پنجاب یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ۔1977ء میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے انہیں تاحیات پروفیسر ایمریطس مقرر کیاگیا ۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے 1932ء سے 1988ء کے دوران 53 تحقیقی مقالہ جات لکھے ، جو مختلف بین الاقوامی جرائد کی زینت بنے ۔شاندار سائنسی خدمات پر متعدد ملکی اور غیر ملکی اداروں کی تنظیموں نے ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو رکنیت ، "چئیر مین شپ” سے نوازا ۔ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو پاکستان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ خدمت 1964ء ، ستارہ امتیاز 1982ء اور 2005ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا ۔ بلآخر 4 دسمبر 1988ء کو مختصر علالت کے بعد ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری انتقال کر گئے ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات کے صلے میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔(انشاء اللہ)