ہے جس کا تخت سجدہ گاہ خاص و عام شہر
میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا
سعادت سعید
پیدائش:15 مارچ 1949ء
لاہور
شہریت: پاکستان
مادر علمی:جامعہ پنجاب
پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے معروف نقاد، شاعر اور محقق ہیں۔ آپ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور میں پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور ان دنوں بطور پروفیسر مذکورہ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ علاوہ ازیں، آپ انقرہ یونیورسٹی، ترکی میں اردو و پاکستان اسٹڈیز چئیر سے بھی منسلک رہے۔
ابتدائی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔
سعادت سعید 15 مارچ، 1949ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر اللہ دتہ (الف د) نسیم بھی اردو زبان و ادب کے استاد تھے۔
تعلیم
۔۔۔۔۔۔
سعادت سعید نے ابتدائی تعلیم منٹگمری یعنی ساہیوال سے حاصل کی۔ 1967ء میں گورنمنٹ کالج، ساہیوال سے بی اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آ گئے۔ 1969ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان پاس کیا اور بہترین کارگردگی پر انھیں طلائی تمغے اور بابائے اردو گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ 1988ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ہی اردو زبان و ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
تدریسی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔
سعادت سعید نے اپنے تدریسی کیرئیر کا آغاز 1970ء میں بطور لیکچرار گورنمنٹ کالج راوی روڈ سے کیا۔ اسی سال وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج، لائلپور سے وابستہ ہوئے۔ تین برس بعد وہ اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ، لاہور آ گئے، جہاں انھوں نے 1986ء تک خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں، وہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر منتخب ہو کر گورنمنٹ کالج، لاہور چلے گئے۔ 1995ء میں ان کا بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر انتخاب ہوا اور چار برس بعد وہ اردو و پاکستان اسٹڈیز چیئر، انقرہ یونیورسٹی کے لیے منتخب ہو کر ترکی چلے گئے۔ وطن واپس آ کر وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے بطور پروفیسر منسلک ہو گئے، جہاں انھوں نے صدر شعبۂ اردو کے طور پر بھی کام کیا۔ 2009ء سے تا حال وہ مذکورہ یونیورسٹی سے بطور سینئر وزٹنگ پروفیسر مذکورہ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔
تخلیقات
۔۔۔۔۔۔۔
(1) کجلی بن (نظموں کا مجموعہ)
سنگ میل ،لاہور، 1988ء
(2)اقبال اور مجلہ ساہیوال
بزم اقبال، لاہور، 1989ء
(3) تہذیب، جدیدیت اور ہم
اقبال۔ شریعتی فاؤنڈیشن، لاہور، 1991ء
(4) مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق
(اردو نثری ترجمہ)، اقبال۔
شریعتی فاؤنڈیشن، لاہور، 1992ء
(5) جہت نمائی،
دستاویز مطبوعات ،لاہور، 1995ء
(7) فن اور خالق،چند جدید نظم گو
شعرا کے مطالعے
دستاویز مطبوعات ،لاہور، 1998ء
(8) ادب اور نفی ادب ،ادبی نظریہ سازی
دستاویز مطبوعات ،لاہور، 1998ء
(9) اقبال ایک ثقافتی تناظر
دستاویز مطبوعات ،لاہور، 1998ء
(10) چاند وقت، ترکی شاعری
از سرپل کلفل، (ترجمہ)
مکتبہ الفاروق، لاہور، 1998ء
(11) فنون آشوب (طویل نظم)
مکتبہ ابلاغ، لاہور، 2002ء
(12) بانسری چپ ہے (شعری مجموعہ)
دستاویز مطبوعات، لاہور، 2002ء
(13) شناخت (شعری مجموعہ)
مکتبہ نسیم، لاہور، 2007ء
غزل
۔۔۔۔۔۔
آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا
غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا
کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں
آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا
لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر
عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا
شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق
قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا
دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج
اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا
ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر
میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا
جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی
طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا
نظم
۔۔۔۔۔
مرنے کا خوف
۔۔۔۔۔۔۔۔
سر زمین تمنا کی مٹی سلاخیں اگانے لگی ہے
گرفتار ہونے کا موسم
سر قریۂ آبرو
آفتاب ہلاکت کی صورت چمکنے لگا ہے
شعاعوں کے نوکیلے پنجوں نے جسموں کو زخمی کیا ہے
بھنور در بھنور روشنی کے سمندر
طوفان قیدی ہوئے
یہ بستی گناہوں سے معمور آفت رسیدوں کی بستی ہے
نوزائدہ آرزو انتہاؤں کے امکاں سمیٹے
ضمیروں میں لتھڑی جرائم زدہ خواہشوں کو
مٹائے تو کیسے
رگوں کے دریچوں سے لپٹی فصیلوں کو ریزوں کی صورت
ہوا میں اچھالے تو کیسے
کہ اس کا نوشتہ فقط از سر نو گرفتار ہونا
نے دائروں کے تسلط میں جینا
سیاہی کے باطن میں موجود غاروں میں رہنا
ہلاکت کی سرچشمہ گاہوں سے
آزاد رہنے کی عظمت سے واقف ہواؤ
ہماری فصیلوں کی جانب بھی آؤ
ہمیں یہ بتاؤ
گرفتار ہونا ہمارا نوشتہ نہیں تھا
ارادوں میں موجود طوق و سلاسل
ہوس ناک دہشت
تمنا کی مٹی میں فولاد ہوتے رہے ہیں
خود اپنی توانا حقیقت
گرفتار کرنے سے قاصر رہے میں
نظم
۔۔۔۔۔
اپنی محرومی کا دکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نوحہ لکھتا ہوں اپنے خلیوں کے چھلنی خوابوں اے
سر زمین ہوس میں پھیلے سراب آسا کھلے گلابوں کا
منظروں کے لہو میں گھلتی غلیظ مٹی کی باتوں کا
مرے وجود سیہ بختی میں اجڑے اشکوں کے گرد سائے قفس بنے میں
میں دائروں کے مہین تاروں کی
ناتمامی میں
ریشہ ریشہ سمٹ گیا ہوں
کہانیوں کے دبیز پردوں کی تہ میں عریاں
تمہاری آنکھوں کی مسکراہٹ عذاب بن کر
مرے سفر کی ہر ایک منزل میں آ چھپی ہے
میں نوحہ لکھتا ہوں
زرد سوچوں کا
کالی سانسوں کا
اپنے ہونٹوں کے شمسی لفظوں کا ذائقوں کا
تمہارے سینے پہ کنڈلی مارے جو سانپ بیٹھا ہے
اس کی خونی زباں کا نوحہ
خود اپنے باطن کے خشک صحرا میں
اجلے تاروں کی تابناکی کا
خواہشوں سے بھری ہواؤں کی کائناتوں کا نوحہ لکھتا ہوں نوحہ خواں ہوں