وزیر دفاع خواجہ آصف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وفد کے ہمراہ ڈاکٹر شمع جونیجو کی موجودگی پر سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے بعد ایک وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہے۔ اس وفد میں معروف کالم نگار اور سماجی کارکن ڈاکٹر شمع جونیجو کی شمولیت نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصاویر میں ڈاکٹر شمع جونیجو کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف کے عقب میں بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تصاویر وائرل ہونے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے سخت تنقید سامنے آئی ہے، خاص طور پر اس بنیاد پر کہ ڈاکٹر شمع ماضی میں اسرائیل سے متعلق بعض متنازع بیانات دے چکی ہیں، جنہیں فلسطینی عوام کے جذبات کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تنقید کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک وضاحتی پیغام جاری کیا۔ اپنے پیغام میں انہوں نے واضح کیا کہ”اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر میں نے اس لیے کی کیونکہ وزیراعظم مصروف تھے۔ میرے پیچھے کون بیٹھے گا، یہ فیصلہ وزارت خارجہ کا ہوتا ہے نہ کہ میرا۔”انہوں نے مزید کہا "فلسطین کے مسئلے سے میرا 60 سالہ جذباتی تعلق اور کمٹمنٹ ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں اس مسئلے پر ہمیشہ پاکستان کے اصولی مؤقف کا حامی رہا ہوں۔”
خواجہ آصف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا پر متعدد صارفین پاکستانی وفد کی شفافیت اور نمائندگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ جیسے حساس اور عالمی سطح کے فورم پر ایسے افراد کی شمولیت جن کا ماضی متنازع ہو، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور فلسطین سے وابستگی پر سوالیہ نشان بنتی ہے۔تاحال وزارت خارجہ کی جانب سے ڈاکٹر شمع جونیجو کی وفد میں شمولیت پر کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ انہیں کس حیثیت میں اس وفد کا حصہ بنایا گیا ہے
ڈاکٹر شمع جونیجو ایک معروف صحافی، کالم نگار اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ تاہم، ان کے بعض ماضی کے بیانات، جن میں اسرائیل سے متعلق نرم رویہ اختیار کیا گیا تھا، حالیہ تنقید کی بنیاد بنے ہیں۔ ان بیانات کے اسکرین شاٹس اور ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں