سپریم کورٹ نے منشیات برآمدگی سے متعلق کیس میں ملزم زاہد نواز کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا-
کیس کی سماعت جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ،نےکی، جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی بھی بینچ کا حصہ تھے،فیصلے میں عدالت نے کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے ہی مقدمے میں جج نہیں ہو سکتا، پولیس انسپکٹر محمد نعیم ضیا، جو مدعی بھی تھے، نے خود تفتیش کی، جس سے شفافیت متاثر ہوئی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی۔
عدالت نے کہا کہ 1280 گرام چرس میں سے 64 گرام کا نمونہ 15 دن بعد اور باقی 1216 گرام مالخانے میں 12 دن بعد جمع کرایا گیا، جس سے چین آف کسٹڈی ثابت نہ ہو سکی، سپریم کورٹ نے کہا کہ استغاثہ کیس شک سے بالاتر ثابت نہیں کرسکا اور پولیس اہلکار کی ذاتی گواہی کے بغیر سزا دینا انصاف کے اصول کے خلاف ہے۔عدالت نے ملزم کے مؤقف کو تسلیم کیا کہ مقدمہ دشمنی کی بنیاد پر بنایا گیا اور استغاثہ شفاف تفتیش اور آزاد شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
وفاقی کابینہ کی ایک ماہ کی تنخواہ سیلاب ریلیف فنڈ میں دینے کا فیصلہ واپس
بعدازاں،سپریم کورٹ نے منشیات برآمدگی سے متعلق کیس میں ملزم زاہد نواز کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری کیال،6 صفحات پر مشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے 14 دسمبر 2022 کو ملزم زاہد نواز سے ایک ہزار 280 گرام چرس برآمدگی کا دعویٰ کیا۔
مدعی اور تفتیشی افسر دونوں ایک ہی شخص ہیں، یعنی انسپکٹر محمد نعیم ضیا نے ہی مقدمہ درج کروایا اور تفتیش بھی انہیں ہی سونپ دی گئی،عدالت کے مطابق مدعی خود ہی تفتیش کرے تو شفافیت متاثر ہوتی ہے، ملزم زاہد نواز نے شروع سے ہی تفتیش کو متعصب قرار دیا تھا،فیصلے کے مطابق مدعی کا خود ہی تفتیشی بن جانا انصاف کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔
دریائے راوی اور ستلج میں پانی کے بہاؤ میں خطرناک حد تک اضافہ








