دُکھی ڈاکٹروں کی خدمت

دُکھی ڈاکٹروں کی خدمت
تحریر: ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
میرے لڑکپن کے دور میں ذرائع ابلاغ ریڈیو،اخبارات اورٹی وی جوکہ صرف پی ٹی وی ہی تھاپرمشتمل تھا،اس وقت ٹی وی صرف امیرگھرانوں میں ہوتا تھا،عام عوام کیلئے صرف ریڈیو ہی واحد ذریعہ تھا جس سے خبریں ،حالات حاضرہ پر تبصرے اور انٹرٹینمنٹ کے پروگرام نشر ہوتے تھے ،ہمارے گھر میں بھی اس وقت ریڈیو ہوا کرتا تھا جوکہ میرے والدمحترم کے پاس ہوتا تھاجسے ہاتھ لگانے کی ہمیں اجازت نہیں تھی ،ریڈیو پاکستان ملتان سے روزانہ نشرہونے والا پروگرام جو شمشیرحیدریاشمی اور ملک عزیزالرحمٰن کی میزبانی میں نشرہوتا تھااس پروگرام کانام تھا’جمہور دی آواز’ لیکن وہ پروگرام ملک مہر کے نام سے زیادہ مشہور تھا جسے چھوٹے بڑے بہت شوق سے سنتے تھے ،جب یہ پروگرام سردیوں کی شام تقریباََ 7بجے آن ائیرہوتا تو گھرمیں ایک پنڈال سج جاتا تھاچھوٹے بڑے اس پروگرام کوبڑے انہماک سے سنتے تھے ،اس پروگرام میں ڈرامہ چاچاڈیرے دار، قصے اور ملک ، مہرکی شاندار کمپیئرنگ اپنی مثال آپ تھی ۔

خبروں ،حالات حاضرہ کے دیگرپروگرامز کیلئے سب سے معتبرذریعہ بی بی سی اردو ہی سمجھاجاتا تھا،اس وقت بی بی سی اردو میں رضارعلی عابدی،ثریا شہاب ،مدثرہ منظر،شفیع نقی جامعی ودیگرکی آوازیں ہواکی لہروں کے ذریعے ریڈیو پر سنائی دیتی تھی،بی بی سی اردو پر خبریں ،حالات حاضرہ کاپروگرام سیربین ،کھیل کے میدان سے شفیع نقی جامعی کا شاندارپروگرام قابل ذکر ہیں ،بی بی سی اردو اپنے سامعین کیلئے ایک تفریحی پروگرام سویرے سویرے بھی نشرکرتا تھا،جس میں مداری اور جمہورے کاکھیل پیش کیا جاتاتھا،اس کے پروگرام میں مداری جمہورے بچے سے پوچھتا ہے کہ کچھ دنوں سے تم غائب تھے ،کہاں گئے تھے ؟ تو جمہورابچہ اس کاجواب دیتا ہے کہ میں پڑھنے کیلئے سکول گیا تھا،اس کے جواب پر مداری پھر پوچھتا ہے کہ تم پڑھ لکھ کر کیا بنوگے ؟ تو جمہورابچہ اسے جواب دیتا ہے کہ میں پڑھ لکھ کر ایک مریض بنوں گا،مداری پھر سوال کرتا ہے کہ تم انجینئر،ڈاکٹر،فوجی یا بیورکریٹ کی بجائے مریض کیوں بنوگے؟اس پر جمہورابچہ جواب دیتا ہے کہ میں مریض اس لئے بنوں گا تاکہ "دکھی ڈاکٹروں” کی خدمت کرسکوں۔

اُس وقت اُس جمہورے کی بات سمجھ سے بالاتر تھی لیکن وہ بات آج تک ذہن میں نقش ہوگئی ،آج اگر وطن عزیزمیں ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹروں کودیکھنے کے بعد سمجھ آئی کہ اس وقت جمہورے نے یہ کیوں کہا تھا کہ میں پڑھ لکھ کرایک مریض بنوں گا اور تاکہ دکھی ڈاکٹروں کی خدمت کرسکوں ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کوئی ڈاکٹرڈیوٹی کرتا ہی نہیں ہے اگر کوئی ڈاکٹربھولے سے ہسپتال میں آجائے، مریض دیکھنے کی بجائے اسے مشورہ دیاجاتا ہے تم فلاں ہسپتال میں چلے جاؤ وہاں پرسرکاری ہسپتال کی نسبت علاج کی زیادہ بہتر سہولتیں ہیں، جب مریض بتائے گئے ہسپتال پہنچتا ہے تو سب سے پہلے اس سے بھاری بھر رقم فیس کے نام پر بٹوری جاتی ہے ،پھر لیبارٹری ٹیسٹ ،مریض اپنی مرضی سے کسی لیب سے ٹیسٹ نہیں کراسکتا چاہے اس لیب کامعیار انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کا ہی کیوں نہ ہواس کی رپورٹ ریجیکٹ کردی جاتی ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہ رپورٹ غلط ہے آپ فلاں لیب سے ہی ٹیسٹ کراکر آؤکیونکہ وہ لیب ڈاکٹرکو بھاری کمیشن دے رہی ہوتی ہے اس لیب کارزلٹ چاہے جوبھی ہواس کی رپورٹ ڈاکٹرکوقبول ہوتی ہے اور ڈاکٹرزایسے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں جن کامریض کی بیماری سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا،ایکسرے ،الٹراساؤنڈ،سی ٹی سکین بھی ڈیل کئے ہوئے سنٹرسے کرائے جاتے ہیں، جہاں سے باوثوق ذرائع کے مطابق ڈاکٹرکو50فیصد سے بھی زیادہ کمیشن ملتا ہے ،تقریباََ ہرپرائیویٹ ہسپتال میں اٹیچ فارمیسی ہوتی ہے جہاں پر کٹ ریٹ اور ناقص و دونمبرادویات مریضوں کودی جاتی ہیں یہ ایسی ادویات ہوتی ہیں جو باہر کے کسی بھی میڈیکل سٹورپر دستیاب نہیں ہوتیں۔ہمارے ڈاکٹرکمپنیوں کی سپانسرپر غیرممالک کے سیرسپاٹے کرتے ہیںاورفارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ڈاکٹرزبھاری کمیشن لیتے ہیں جس سے ہمارے ڈاکٹرزمسیحاکی بجائے کمیشن ایجنٹس بن چکے ہیں،انہیں صرف اپنے کمیشن سے غرض ہوتی ہے ،مریض کی بیماری سے کوئی لینادینا نہیں ہوتا،مریض ان دونمبرادویات اور غلط رپورٹوں کی وجہ سے مرتا ہے تومرجائے یا زندگی بھر کیلئے معذور ہوجائے۔

شہروں میں قدم قدم پر قائم پرائیوٹ ہسپتال اور میٹرنٹی ہومزمیں جب ایک حاملہ خاتون نارمل چیک اپ کرانے کیلئے آتی ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ آپ کابچہ کمزور ہے اور الٹا ہے ،آپ کے بچے کی نارمل ڈلیوری نہیں ہوسکے گی ،بچہ پیداکرنے کیلئے آپریشن ہی ہوگا، ان کلینکس میں عام طور پر ایک سیزیرین سیکشن پر ایک لاکھ سے ایک ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کئے جاتے ہیں،حالانکہ سی سیکشن اس وقت ضروری ہوجاتا ہے جب ماں اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہولیکن یہاں تو ہردوسری تیسری نوجوان ماں کا پیٹ کاٹ دیا جاتا ہے ،یہ نہیں سوچاجاتا کہ اس نوجوان ماں کو آگے چل کر کن مسائل کاسامنا کرنا پڑے گا،جب پیٹ کاٹ دیا جاتا ہے تو اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے زخم جلدی نہیں بھرتا، کبھی خون نہیں رکتا اور کبھی پیٹ میں مستقل درد کی شکایت ہو جاتی ہے۔ پہلی اولاد آپریشن سے ہونے کے باعث امکان بڑھ جاتا ہے کہ ہر بار آپریشن ہی کرنا پڑے گا جس سے ان کی صحت پر انتہائی نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ سی سیکشن کے عمل میں بچے اور ماں کی صحت کو تین گنا زیادہ رسک ہوتا ہے۔ماں کے ان مسائل سے ڈاکٹرزکو کوئی سروکارنہیں ہے انہیں تو بس دولت سے دلچسپی ہوتی ہے، انسانیت کی خدمت اب صرف کتابوں کے محاوروں میں استعمال ہونے کیلئے رہ گیا ہے۔

پاکستان میں ڈاکٹروں کی فیس ،ضرورت کے بغیرسی سیکشن کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے اور ڈاکٹروں کی علاج کے نام پر کرپشن کی روک تھام کیلئے کوئی قانون ہے ہی نہیں ،امیرلوگ اور حکمران طبقہ تواپنا علاج کرانے کیلئے مغربی ممالک کوترجیح دیتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑرہا ہے کہ آج سے 35 ،40سال قبل جمہورے بچے کی کہی بات اس طرح سچ ثابت ہوچکی ہے کہ آج ہرپاکستانی پڑھ لکھ بھی علاج کے نام پر دکھی ڈاکٹروں کی خدمت کرنے میں مصروف ہے اور نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا،اور کب تک عوام علاج کے نام پر لٹتی ،کٹتی اور مرتی رہے گی ؟

Comments are closed.