اسلام آباد: توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران دو اہم درخواستیں دائر کی گئیں، جس نے ان کی قانونی ٹیم اور جیل انتظامیہ کے درمیان ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری نے عدالت میں دو الگ درخواستیں پیش کیں۔ پہلی درخواست میں سابق وزیراعظم کے لیے ورزش کے مقصد سے ڈمبل کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا، جبکہ دوسری درخواست میں بینک اسٹیٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری دستاویزات پر دستخط کرنے کی اجازت مانگی گئی ،عدالت نے دونوں درخواستوں پر غور کرتے ہوئے جیل حکام کو ہدایت کی کہ وہ جیل مینوئل کے مطابق کارروائی کریں۔ تاہم، جیل انتظامیہ نے اس معاملے پر سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں درخواستوں کو مسترد کر دیا۔
جیل حکام کا موقف ہے کہ ڈمبل کی فراہمی جیل کے قوانین کے خلاف ہے اور اس سے سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عمران خان کو بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق دستاویزات پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اس فیصلے نے عمران خان کی قانونی ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا ہے، جو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس میں اپنے مؤکل کا دفاع کرنے کے لیے ضروری معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ بینک اسٹیٹمنٹ تک رسائی نہ ہونے سے ان کی دفاعی حکمت عملی متاثر ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب، جیل حکام کا موقف ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اور کسی قیدی کو خصوصی سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام قیدیوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے اور عمران خان کو کوئی استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔اس تنازعے نے ایک بار پھر پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عمران خان کی قانونی ٹیم اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے اور آیا وہ اپنے مؤکل کے لیے مطلوبہ سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ اس دوران، 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس کی سماعت جاری رہنے کی توقع ہے، جس میں مزید حیران کن موڑ آنے کا امکان ہے۔

Shares: