دنیا کا طالب خدا سے بھی مخلص نہیں ہوتا
تحریر: ظفر اقبال ظفر
دنیا بنانے والے نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ بہت بری ہے۔ لیکن جب ہم زمین کے فرش پر خدا کی جھلک دکھانے والی بے شمار خوبصورت تخلیقات کو دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ کیا واقعی یہی فرش زمین دنیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے علم کے گہرے سمندر میں غوطے لگانے کی ضرورت نہیں، بلکہ سطح پر ہی رہتے ہوئے یہ سمجھ لینا کافی ہے کہ انسانوں کا دنیاوی خواہشات میں جکڑا ہوا طرزِ عمل ہی دنیا کے چہرے کا اصل تعارف ہے۔

جب خالق نے دنیا کو برا کہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی اصل برائیاں جھوٹ، فریب، دھوکہ، حرام، ظلم، زیادتی، بددیانتی، ناانصافی، زنا، سود، ملاوٹ اور خیانت ہیں۔ یہ تمام برائیاں مل کر دنیا کہلاتی ہیں اور یہ دنیا اُسی کے پاس جمع ہوتی ہے جو اس کے مزاج کا بن جاتا ہے۔ وہ چیز جو کافر اور مسلمان دونوں کے پاس ہو، وہ نعمت نہیں ہوتی، اصل نعمت صرف ہدایت ہے۔

ہدایت جھونپڑی میں رہنے والے کو بھی اتنا قیمتی بنا دیتی ہے کہ دنیا کے سکے اسے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے: میرے نزدیک دنیا ایسی ہے جیسے سور کی انتڑیاں کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔
اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے۔

مومن کے لیے دنیا صرف ضروریاتِ زندگی تک ہی حلال ہے، اس سے بڑھ کر جو کچھ ہے وہ دنیا ہے۔ غریبی دراصل وہ امیری ہے جو خدا نے اپنے ہر محبوب بندے کو عطا کی۔ اس لیے خواہشاتِ دنیا کا قیدی بننے کے بجائے غریبی کی آزاد فضاؤں میں روح کی پرواز کا مزہ زندگی کو دیجئے۔

زندگی کی مشکلات دراصل آخرت کی آسانیوں کی دلیل ہیں، ان پر صبر کیجئے اور خدا کے ساتھی بن جائیے۔

Shares: