اس وقت امریکہ پر ایک 78 سالہ بڈھا حاکم وقت ہے یعنی امریکی صدر ہے جس کا دماغی توازن بھی کسی حد تک درست نہیں لگتا..دنیا کے اندر بہت سے مذاہب ہیں جن کے مختلف عقیدے ہیں تاہم موت بارے ہر کسی کا یہی واحد عقیدہ ہے کہ مرنا لازم ہے چاہے جتنی دیر مرضی جی لو آخر موت قبر تک لے کر ہی جائے گی .ویسے تو پیدا ہوتے بچے کی زندگی کا بھی علم نہیں مگر جب انسان بڑھاپے کی طرف چلا جاتا ہے تو موت اس کے بہت قریب ہو جاتی ہے اس لئے اسے زندہ رہنے کی چاہت تو ہوتی ہے مگر اسے موت کی قربت بھی بہت محسوس ہو رہی ہوتی ہے سو وہ مرنے سے جوان لوگوں کی نسبت کم ڈرتا ہے
امریکی نیویارک ملٹری اکیڈمی اور پینسلوانیا یونیورسٹی کے وارٹن سکول آف فنانس اینڈ کامرس کا تعلیم یافتہ 78 سالہ بڈھا صدر ٹرمپ جو کہ امریکہ کا 47 واں صدر ہے، اب پوری دنیا کو خاص کر مسلمان ممالک کو دھمکیاں لگا رہا ہے اور اس نے پچھلے مہینے اپنے بیان میں کہا کہ ہم دنیا کو سو مرتبہ تباہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جس پر پوری دنیا میں سراسیمگی پھیل گئی ہے
جب کوئی غنڈہ بدمعاش کسی کو دھمکی لگاتا ہے تو وہ اپنی طاقت و اسلحہ کی بنیاد پر ہی دھمکی لگاتا ہے سو اسی لئے امریکی ایٹمی ملک کے سربراہ نے پوری دنیا کو للکارا ہے
اس بارے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کہ کل 9 ایٹمی ممالک ہیں
جن میں 1 امریکہ 2 روس 3 فرانس 4 چین 5 برطانیہ 6 بھارت 7 پاکستان 8 اسرائیل اور نواں ملک شمالی کوریا ہے اور ان تمام ممالک کے پاس لگ بھگ 13000 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تو امریکہ نے آخر اتنی بڑی دھمکی لگائی کیوں؟
اس بات میں بلکل شک نہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا اب تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے تاہم اب جہاں دیگر چیزوں میں ترقی ہوئی ہے وہاں ایٹمی ہتھیاروں میں بھی جدت آئی ہے اب وہ دور نہیں رہا کہ امریکہ جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم مار کر نکل جائے گا
اب حالات بدل چکے ہیں
اب ایٹمی جنگ ہونے کی صورت میں First Strike یعنی پہلے حملے کے بعد جوابی طور پر Second Strike اور پھر Third Strike یعنی تیسرے جوابی حملے کی ٹیکنالوجی موجود ہے
پہلے حملے کی صلاحیت تو تمام 9 ایٹمی ممالک کے پاس موجود ہے تاہم
Second Strike Capability
کی صلاحیت اسی ملک کے پاس ہوتی ہے جب وہ دشمن کے پہلے ایٹمی حملے کے بعد بھی جواب دینے کی قوت رکھتا ہو جس کا مقصد دشمن کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اگر وہ پہل کرے گا تو بھی اسے تباہ کن جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا
مثال کے طور پر اگر ایک ملک پر ایٹمی حملہ ہوتا ہے لیکن اس کے پاس زمینی، سمندری، یا فضا میں محفوظ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تو وہ جوابی ایٹمی حملہ کر سکتا ہے
Third Strike Capability
یعنی تیسرے جوابی حملے کی عمومی طور پر ابھی عام اصطلاح استعمال نہیں ہوتی لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی ملک پہلے ایٹمی حملے کے بعد دوسرا جوابی حملہ کرتا ہے اور پھر بھی اس کے پاس مزید جوابی حملے کیلئے Third Strike کی صلاحیت موجود ہے تو اسے Third Strike Capability کا حامل کہا جا سکتا ہے اور عموماً زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے طاقتور ممالک کے پاس ہی ایسا ہونا ممکن ہے
اس وقت امریکہ کے پاس زمین، سمندر اور فضا میں ایٹمی ہتھیاروں کی وسیع صلاحیت یعنی Nuclear Triad موجود ہے اور
روس ایٹمی آبدوزیں، میزائل سسٹمز، اور فضائی بمبار طیارے رکھتا ہے
چین موبائل میزائل لانچرز، آبدوزیں، اور جوابی حملے کے قابل جوہری ہتھیار رکھتا ہے
فرانس بھی آبدوزوں اور فضائی بمباروں کے ذریعے Second Strike دے سکتا ہے
برطانیہ کے پاس بنیادی طور پر آبدوزوں پر مبنی ایٹمی حملے کی صلاحیت موجود ہے
جبکہ ہمارے پڑوسی اور دشمن ملک بھارت نے حالیہ دہائیوں میں Second Strike صلاحیت حاصل کر لی ہے خاص طور پر اس کے پاس آبدوزوں میں بیلسٹک میزائل رکھنے کے صلاحیت ہے
اور ہمارے واحد ایٹمی اسلامی ملک پاکستان نے بھی حالیہ اطلاعات کے مطابق اپنی پہلی ایٹمی آبدوز تیار کر لی ہے جس سے وہ دنیا کا ساتواں ملک بن گیا ہے جو دوسرے جوابی حملے کی صلاحیت رکھتا ہے اور
یہ پیش رفت پاکستان کی بحری دفاعی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرتی ہے اور خطے میں طاقت کے توازن پر اثر انداز ہو سکتی ہے
نیز پاکستان نے آبدوز سے لانچ کئے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر بھی کام شروع کیا ہے جو اس کی جوابی حملے کی صلاحیت کو مضبوط بناتے ہیں
اسرائیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بھی محدود Second Strike کی صلاحیت موجود ہے لیکن یہ مکمل طور پر یقینی نہیں ہے کیونکہ آبدوزوں میں ایٹمی میزائلوں کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے
پہلے حملے کے جواب میں دوسرے جوابی حملے کی
صلاحیت رکھنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ دشمن کو جنگ شروع کرنے سے روکا جائے کیونکہ اگر ایک ملک جانتا ہو کہ وہ جوہری حملہ کرکے بھی خود محفوظ نہیں رہ سکے گا تو وہ حملہ کرنے سے باز رہے گا یہ Mutually Assured Destruction یعنی
(MAD)
کا بنیادی نظریہ ہے
اب جنک ممالک پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ان کے لئے دوسرے جوابی حملے کی طاقت حاصل کرنا لازم ہے اور پھر اس کے بعد تیسرے جوابی حملے کی ٹیکنالوجی بھی لازم ہے
اور تیسرے جوابی حملے کی طاقت اس وقت صرف امریکہ کے پاس ہی ہے اس کے پاس 5 ایسے طیارے ہیں جو ایٹمی حملے کی صورت میں زمین سے بہت اوپر فضاء میں کئی مہینے رہ سکتے ہیں نیز امریکہ کا دعوی ہے کہ خلاء میں بنایا گیا اس کا خلائی اسٹیشن بھی زمین پر ایٹمی بم برسانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لئے وقت کے فرعون ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا کو سو مرتبہ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
ان باتوں میں شک نہیں مگر بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے قئامت وقت سے پہلے نہیں آئے گی اور نا ہی موت وقت سے پہلے آسکتی ہے
دوسری بات امریکہ یہ سب تب ہی کرے گا جب اس پر حملہ ہو گا اور دنیا کے 9 ایٹمی ممالک میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کرے کیونکہ اب اگر ایک ملک ایسا کرے گا تو دوسرا مجبوراً جوابی حملہ کرے گا جس کا مطلب دو طرف تباہی اور تیسری عالمی جنگ ہے
ان ایٹمی ہتھیاروں کیلئے بے انتہاء پیسہ لگانا پڑتا ہے اس لئے اب امریکہ کی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ مقروض ہو کر بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کو بڑھاتا چلا جائے
اسی طرح دو غریب ممالک بھارت اور پاکستان کی بھی مجبوری ہے کہ وہ اپنی بقاء اور سلامتی کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ کر ٹیکنالوجی حاصل کریں
آپ اسرائیل کی مثال لے لیں اس نے حماس سے طویل جنگ لڑ لی مگر ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی وہ فلسطین پر ایٹمی حملہ نا کر سکا اور یہی حال بھارت ہے کہ جس سے 77 سال قبل ہم نے مقبوضہ کشمیر چھین کر موجودہ آزاد کشمیر بنایا مگر بھارت کی جرات نہیں کہ وہ پہلے ایٹمی حملہ کرے کیونکہ اسے معلوم ہے اس جیسا توازن پاکستان موجود ہے
نیز وہ ممالک جو ایٹمی قوت نہیں ان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی بقاء کی خاطر کسی نا کسی ایٹمی ملک سے جڑ کر رہیں یا پھر خود ایٹمی قوت بنیں