معاشی بدحالی
تحریر : نزرانہ اعوان
سردیوں کی یخ بستہ شام منہ لپیٹےایک مجبور ماں اپنے معصوم بچے کوایدھی سنٹر کےجھولے میں چھوڑ جاتی ہے۔۔۔۔اس سے سوال کیا گیا ؟؟ کہ کیا تجھے تمہاری ممتا ستائے گی نہیں ؟کیا اس بچے کی سسکیاں تجھ کو رولائیں گی نہیں؟ اسکے خشک و زرد ہونٹوں سے آواز آئی۔۔میں اپنا بھوکا پیٹ تو برداشت کر سکتی ہوں لیکن اپنے بچے کو بھوکا روتے نہیں دیکھ سکتی ۔اس پر یہ کہنا لازم ہےکہ.
خاک میں ماں کی محبت کو ملا دیتی ہے
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
دور حاضر میں ہر فرد اس بات پر لڑ رہا ہے کہ ہم اخلاقی بدحالی کا شکار ہیں ۔لیکن میرا یہ دعوٰی ہے کہ ۔۔۔ ہم اخلاقی بدحالی سے زیادہ معاشی بدحالی کا شکار ہیں کیونکہ تاریخی اوراق گواہ ہیں کہ جب جب اخلاقيات تباہی کے دہانے پر پہنچے تو اس کی اصل وجہ معیشت ٹھہری،اور آج کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا جلد از جلد کوئی حل نکالیں،بجائے اس کے کہ ہم چند ووٹوں کے عوض سٹیج پر کھڑے ہو کر بڑی بڑی باتیں کرتے رہیں کیونکہ اخلاقیات ہر لحاظ سے معیشت کی محتاج ہے .
روٹی کے چند ٹکڑوں اور قابل گزارہ دودھ کی قلت، ان دم توڑتے بچوں کا مسئلہ اخلاقیات نہیں معیشت ہےجب ایک مجبور ماں اپنے بچوں سمیت ریل گاڑی سے ٹکرا جاتی ہے تو اس کامسئلہ اخلاقیات نہیں معیشت ہے۔ دو کلو آٹے کےلیے جب ایک بوڑھا ملتان میں نشتر ہسپتال کےباہر اپنا خون بیچتا ہے تو اسکی وجہ اخلاقیات نہیں معیشت ہے ۔جب کراچی کے علاقے لیاری میں رہائش پزیر سلطان نامی عمر رسید آدمی بیروزگای سے تنگ آکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اسکا مسئلہ اخلاقیات نہیں معیشت ہے۔ جب ننکانہ صاحب میں 35سالہ فیاض اپنی بچوں سمیت دریا میں کود جائے تو اسکا مسئلہ ہماری معیشت ہے۔جب اک نوجوان مہنگائی کے ہاتھوں اپنے خاندان کی ضررویات زندگی پوری نہیں کر پائے گا تو پھر بے شک وہ چور اور ڈاکو ہی بنے گا۔ ایسے کئی سلطان اورفیاض اب بھی ہمارے معاشرے کاحصہ ہیں لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ ابھی تک انکی ہمت نے دم نہیں توڑا.
یہ زرد چہرے ،پتھريلی آنکھیں، عصمت لوٹاتی بیٹیاں، بھوک سے سسکتے بچے، فٹ پاتھ پر ٹھٹھرتی آدمیت ہماری معاشی بدحالی کامنہ بولتا ثبوت ہیں ۔۔
چہرا بتا رہا تھا کہ مارا ہے بھوک نے
اور لوگ کہہ رہے تھے کہ کچھ کھا کے مر گیا
تنگ دستی بھوک اور بدتر معاشی حالات اعلیٰ اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔کوئی بھی انسان اخلاقیات کی بات تو تب کرے گا جب اس کی زندگانی فاقہ کشی اور غم بے روزگاری سے عاری ہوگی. پچھلے کئی برسوں سے پاک وہند کے درمیان مسئلہ کشمیر پر جنگ جاری ہے. ہم اقوام متحدہ میں بار بار اپیل کر رہے ہیں مگر آج تک کوئی امید کی کرن نظر نہ آئی،اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس کی وجہ ہماری اخلاقی بد حالی ہے ؟
ہرگز نہیں ہے، اس کی وجہ تو ہماری معاشی بدحالی ہے،ہمیں اب یہ بات تسليم کرنا ہوگی بھارت معیشت میں ہم سے بہتر ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ بے دھڑک کشمیر پر آج بھی قبضہ کر کے بیٹھا ہے ۔ اور میری گزاش ہے ہمارے معزز حکمرانوں سے کہ آپس کے بحث و مباحثہ اور کرسی کے مفاد کے بجائے ملکی معیشت پر دھیان دیں۔اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ دور حاضر میں ہر ملک اپنی اپنی معیشت کا رونا رو رہا ہے کیونکہ کروناوائرس نے تمام ممالک کی معیشت کو تباہ کردیاہے۔اور یہاں تک کہ امریکی معیشت جو کہ دنیا کی ترقی یافتہ معیشت ہے وہ بھی اس موذی وبا کی لپیٹ میں آگئی۔۔۔اور اب ہماری اولین ترجیح بھی معیشت کی بحالی ہونی چاہنے۔ کیونکہ یہ دورسائنس وٹیکنالوجی اورمعیشت میں ترقی کا دور ہے ۔ہمارے ملک کا المیہ تو یہ ہے کہ ہر کوئی فقط کرسی کے حصول تک محدود رہ گیا ہے ۔کوئی بھی اپنی کمزوری کو تسليم نہیں کررہا۔کوئی موجودہ حکومت کو معیشت کی ابتری کاذمہ دار ٹھہراتا ہے،کوئی تمام مسائل کی ہار سابقہ حکومت کے گلے میں ڈال دیتاہے۔اور یہی نہیں کوئی عقل سے عاری تو افواج پاکستان کو ہی نشانہ بنالیتا ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپس کے جھگڑوں سے بالاتر ہو کراپنی معیشت پردھیان دیں.
لیکن اگر اب بھی آپکا دماغ میرے دعویٰ کو ماننے سے انکاری ہے تو میں آپ سے سوال کرتی ہوں۔
کہ جس کا اک ہی بچہ ہو بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ اہل دانش تم کہ گندم لے؟ یا تختی لے؟؟